آکلینڈ کے بارے میں (حصہ دوم) About Auckland (Part II)
پرکشش مقامات
آکلینڈ سوک تھیٹر :۔
سوک سنٹر آکلینڈ کا مشہور ہیریٹیج ایٹموسفیرک تھیٹرہے جسے خاص طور پر مووی پیلس کے طور پر ڈیزائن کیا گیاتھا۔1990 کی دہائی کے آخر میں سوک سینٹر کی وسیع پیمانے پر تزئین و آرائش کی گئی اور اس کے نتیجے میں 1920 کے گلیمر کو جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑ دیا گیا ۔ دی سوک کے اندر تمام کمرے منفرد ہیں اور مختلف ماحول اور موقعے کا احساس پیدا کرتے ہیں۔اضافی عناصر جیسے بڑے ہندوستانی/شمالی افریقی تھیم والے فوئر، دوہری سیڑھیاں اور آرائشی سلاخوں کے گرد گردش کی وسیع جگہ، سوک سنٹر کو بڑی تقریبات کے لیے بہت موزوں بناتی ہے۔ سوک سنٹر گالا ڈنر، کاک ٹیل پارٹیوں، ایوارڈز کی تقریبات کی میزبانی کے لیے ایک مقبول مقام ہے۔
آکلینڈ وار میموریل میوزیم:۔
آکلینڈ وار میموریل میوزیم، تماکی پائینگا ہیرا یا آکلینڈ میوزیم نیوزی لینڈ کے اہم ترین عجائب گھروں اور جنگی یادگاروں میں سے ایک ہے۔ اس کی خوبصورت عمارت 1920 اور 1950 کی دہائیوں میں تعمیر کی گئی۔یہ عمارت آکلینڈ سی بی ڈی کے قریب آکلینڈ ڈومین میں آبزرویٹری ہل پر کھڑی ہے، جو ایک غیر فعال آتش فشاں کی باقیات ہے۔میوزیم میں رکھی گئی اشیاء کےمجموعے نیوزی لینڈ کی تاریخ اور خاص طور پر آکلینڈ ریجن کی تاریخ ، قدرتی تاریخ ، اور فوجی تاریخ پر مشتمل ہیں ۔
:۔Aotea Square
آکلینڈ ، کے مرکزی علاقے میں یہ ایک کھلا عوامی علاقہ ہے ۔ سرکاری طور پر 1979 میں اسے کھولا گیا تھا، یہ کھلی فضا میں ہونے والے کنسرٹس، اجتماعات، اور بازاروں اور سیاسی ریلیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نومبر 2010 میں، اسکوائر کی تعمیر نو ہوئی۔ اسکوائر کو 20,000 تک لوگوں کے ہجوم کے استعمال کے لیے موزوں بنایا گیا
Britomart ٹرانسپورٹ سینٹر
یہ تاریخی ایڈورڈین عمارت میں واقع ، آکلینڈ کے مرکزی کاروباری علاقے میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مرکز ہے ۔ یہ ریلوے اسٹیشن ،سابقہ ایڈورڈین پوسٹ آفس کی وسیع تاریخی عمارت میں واقع ہے ، جس میں جدید فن تعمیر کے عناصر کے ساتھ توسیع کی گئی ہے، اس میں بس انٹرچینج بھی ہے۔ یہ کوئین اسٹریٹ کے تجارتی مرکز میں واقع ہے ، جس کے بالکل سامنے مرکزی فیری ٹرمینل واقع ہے ۔
ایڈن پارک :۔
ایڈن پارک آکلینڈ، میں واقع سٹیڈیم ہے ۔ اس میں لگ بھگ 50,000 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہے ۔ سردیوں میں یہاں رگبی کے میچ منعقد کئے جاتے ہیں ۔ یہاں کرکٹ کے کئی اہم ٹورنامنٹ منعقد کئے جاتے ہیں ۔ یہاں فٹبال کے میچز اور دیگر ثقافتی تقریبات اور کنسرٹ بھی منعقد کئے جاتے ہیں ۔اس سٹیڈیم کی تعمیر سن 1900 میں ہوئی ۔ یہ ایڈن پارک ٹرسٹ بورڈ کی ملکیت ہے ، اس کا صدر دفتر بھی سٹیڈیم میں واقع ہے ۔
ہاربر برج :۔
وائٹماٹا ہاربر پر تعمیر کیا گیا آکلینڈ ہاربر برج،شہر کے مرکزی کاروباری علاقے کو شمالی ساحل سے جوڑتا ہے ۔ اسے 1959 میں ٹریفک کی آمدورفت کے لیے کھولا گیا تھا ۔ اس کی تعمیر سے پہلے گاڑیوں کے بندرگاہ سے گزرنے کا واحد راستہ فیری کے ذریعے تھا ،جو کہ ایک مہنگا اور سست رفتار ذریعہ تھا۔
پل پر ٹریفک میں کوئی بھی تاخیر سدرن اور ناردرن اسٹیٹ ہائی وے 1 موٹر ویز دونوں کو متاثر کرتی ہے، اس لیے ٹریفک کنٹرول کرنے کی جدید منصوبہ بندی اور انتظام کارسواروں اور مال بردار گاڑیوں کو دن کے 24 گھنٹے، ہفتے کے 7 دن چلنے میں مدد کرتا ہے۔ ٹریفک انجینئرز کی ایک مستعد ٹیم لائیو کیمروں کے ذریعے پل کی نگرانی کرتی ہے۔ کیمرے تاکاپونا ٹرانسپورٹ ایجنسی کے ٹریفک آپریشن سینٹر میں تصاویر منتقل کرتے ہیں جہاں آپریٹرز ٹریفک کے بہاؤ کا جائزہ لے سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ہنگامی خدمات اور ٹو ٹرک فراہم کر سکتے ہیں ۔
:Kelly Tarlton‘s Underwater World
مشرقی مشن بے کے مضافاتی علاقے میں ایک معروف ایکویریم، جو کہ سیوریج کے ذخیرہ کرنے والےایسے ٹینکوں کے سیٹ میں بنایا گیا ہے جو اب اس مقصد کے لئے استعمال نہیں کئے جاتے ۔
ہہ ایکویریم 1985 میں آکلینڈ کے شہریوں کی تفریح کے لئے کھولا گیا تھا ۔ 23 تماکی ڈرائیو پر واقع، یہ نیوزی لینڈ کے سمندری ماہر آثار قدیمہ اور غوطہ خور کیلی ٹارلٹن (1937–1985) کے دماغ کی تخلیق تھا ۔ لوگ یہاں ایک آہستہ آہستہ چلنے والی کنویئر بیلٹ پر سفر کرتے ہیں، اوراپنے ارد گرد اور اوپر رنگین مچھلیوں کی زندگی کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔
: اسکائی ٹاور
سکائی ٹاور آکلینڈ کے مرکزی حصے میں واقع ایک مشاہداتی ٹاور ہے جو شہر کے مرکزی حصے میں واقع ہے۔ یہ جنوبی نصف کرے کی دوسری بلند ترین عمارت ہے اور دنیا کا 28واں بلند ترین ٹاور ہے۔ اس خطے میں صرف انڈونیشیا کا آٹوگراف ٹاور اس سے بلند ہے ۔ زمین سے اس کی اونچائی 360 میٹر ہے ۔ اس کی تعمیر 1997 میں مکمل ہوئی ۔ اس کے متعدد منازل تک عوام کی رسائی ہے جہاں لوگوں کے لئے کیفے اور آبزرویشن ڈیک، ہیں جہاں سے شہر کا نہایت خوبصورت نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔ مرکزی مشاہداتی ڈیک جو کہ لیول 60 پر واقع ہے ،کے فرش پر 38 ملی میٹر موٹے شیشے لگائے گئے ہیں جہاں سے براہ راست زمین کا نظارہ کیا جا سکتا ہے ۔
اس ٹاور میں “اسکائی جمپ” کی سہولت بھی ہے، جہاں آبزرویشن ڈیک سے 192 میٹر کی بلندی سے چھلانگ لگائی جاتی ہے، جس کے دوران ایک جمپر 85 کلومیٹر فی گھنٹہ (53 میل فی گھنٹہ) کی رفتار سے زمین کی طرف آتا ہے۔ ہوا کے تیزجھونکے کی صورت میں جمپر کو ٹاور سے ٹکرانے سے روکنے کے لیے یہ جمپ گائیڈڈ کیبل کے ذریعے کنٹرول کی جاتا ہے۔
: وایاڈکٹ بیسن
وائڈکٹ ہاربر ، جو پہلے وائڈکٹ بیسن کے نام سے جانا جاتا تھا، آکلینڈ واٹر فرنٹ پر ایک سابقہ تجارتی بندرگاہ ہے یہ آکلینڈ کے واٹر فرنٹ کا ایک حصہ ہے جو 20ویں صدی کے اوائل میں بنایا گیا تھا۔ ان دنوں، جیسے جیسے بڑے بڑے سمندری جہاز بنائے جانے لگے ، انہیں اس بندرگاہ میں داخل ہونے میں دشواری ہونے لگی ۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے وایاڈکٹ کو اس طرح بنایا گیا کہ بحری جہازوں کو گہرے پانی میں ہی لنگر انداز کرنےکا انتظام کیا جاتا اور سامان کو چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر لاد کر کنارے تک لایا جاتا۔ مگر شپنگ کمپنیوں نے تعاون نہیں کیا اور اسکیم کو زبردست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وقت بدل گیا ہے اوراب یہ سابقہ پسماندہ علاقہ اعلیٰ درجے کے اپارٹمنٹس، دفاتر اور مہنگےریستورانوں میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ سیاحوں اورمقامی لوگوں کے لیے یہ نہایت پرکشش مقام ہے۔یہاں آپ آکلینڈ ہاربر کروز کے ذریعے قریبی جزیروں پر جا سکتے ہیں یافیری کے ذریعے بندرگاہ کی سیر بھی کر سکتے ہیں ۔ بندرگاہ پر پیدل ٹہلنے کے لئے نکل جائیں تو ساحل پر دور تک کھڑی خوبصورت کشتیوں کا نظارہ بہت دلفریب ہے ۔ یہاں وائجر میری ٹائم میوزیم ہے جہاں نیوزی لینڈ کی بھرپور بحری تاریخ کو دریافت کیا جا سکتا ہے۔
:آکلینڈ ڈومین پارک
آکلینڈ ڈومین ایک خوبصورت اور تاریخی پارک ہے جو 140 سال سے زیادہ عرصے سے آکلینڈ شہر کے عین وسط میں موجود ہے۔ لوگ یہاں شہری زندگی کی ہلچل سے بچنے کے لئے آتے ہیں اور فطرت کے حسن میں کھو جاتے ہیں۔
آکلینڈ ڈومین اصل میں تفریح کے علاوہ جنگلی جانوروں اور پودوں کے لیے ایک ریزرو کے طور پر بنایا گیا تھا۔ آج، یہ آکلینڈ کے سب سے بڑے پارکوں میں سے ایک ہے اور مقامی لوگوں میں بے حدمقبول ہے ۔ لوگ کرکٹ یا رگبی جیسے کھیل کھیلنے کے لیےبھی یہاں آتے ہیں۔
اس پارک کا سب سے خوبصورت حصہ وہ ہے جہاں ونٹر گارڈنز واقع ہیں ۔ یہ شیشے کے گھر نما عمارت کے اندر واقع ہے ۔ یہاں بےشمار خوبصورت رنگوں کے نایاب پودے اور پھول ہیں ۔ تصاویر لیتے ہوئے جیسے ہی آپ کو احساس ہو کہ آپ نے تمام اقسام کے پھولوں کی تصاویر لے لی ہیں ، آپ کو نئی شکل اور رنگ کے پھول دکھائی دے جاتے ہیں ۔ ان شیشہ خانوں کے درمیان ایک تالاب ہے جس میں مختلف اقسام کی مچھلیاں رکھی گئی ہیں ۔ تالاب میں فوارے اور خوبصورت مجسمے رکھے گئے ہیں ۔
یہاں مقامی جنگل میں سیر کے لئے ایک ٹریک بنایا گیا ہے جو پہاڑی علاقے کے اوپر سے گزرتا ہے ۔یہاں سے آکلینڈ شہر اور رنگیٹوٹو کا نظارہ بہت ہی دلفریب ہے۔
:ماؤنٹ ایڈن
شہر آکلینڈ سے صرف 5 کلومیٹر کے فاصلے پر یہ آکلینڈ کا بلند ترین آتش فشاں ہے۔ ماوری لوگ اسےماؤنگاواؤکہتے تھے ، جس کا معنی ہے واہو درخت کا پہاڑ ۔آخری مرتبہ یہ تقریباً 15,000 سال پہلے پھٹا تھا جس کے باعث اس کے مرکز میں تقریبا 50 میٹر گہرا گڑھا پڑ گیا تھا۔ ماوری لوگ اسے اپنی زبان میں “متاہو کا پیالہ ” کہتے ہیں ۔ متاہو ان کے ایک دیوتا کا نام ہے جو ماوری عقیدے کے مطابق اس گڑھے میں رہتا ہے اور زمین کے رازوں کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی اونچائی 196 میٹر ہے اور یہ آکلینڈ کا بلند ترین قدرتی مقام ہے۔ پہاڑ کے گردا گرد ایک چکر کھاتی ہوئی سڑک چوٹی تک جاتی ہے جہاں گاڑیوں کا داخلہ بند ہے ۔ لوگ پیدل چوٹی تک جاتے ہیں جس میں تقریبا آدھا گھنٹہ لگتا ہے ۔ ماؤنٹ ایڈن کی چوٹی سے سمندر، شہر، بندرگاہ اور پہاڑیوں کا ایسا دلفریب منظر دکھائی دیتا ہے جس پر جنت کا گمان ہوتا ہے ۔
: ون ٹری ہل
ون ٹری ہل آکلینڈ کی دوسری بڑی آتش فشاں پہاڑی ہے جس کے ساتھ ملحقہ کارن وال پارک ہے ، یوں یہ پہاڑی اس پارک کا ہی ایک حصہ دکھائی دیتی ہے ۔
جان لوگن کیمبل ، کارن وال پارک کے بانی تھے ۔ وہ آکلینڈ آنے والے ابتدائی یورپی آبادکاروں میں سے تھے ۔اپنے کاروباری پارٹنر ولیم براؤن کے ساتھ، انہوں نے یہ جگہ 1853 میں خریدی تھی ۔
سر جان لوگن کیمبل ایک انسان دوست اور معاشرے کی بھلائی کی سوچ رکھنے والے تاجر تھے ۔ اس سرزمین اور اس کی تاریخ سے اپنی محبت کی وجہ سے، انہوں نے یہ جگہ آکلینڈ کے لوگوں کو تحفے میں دی ، اور اس مقصد کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کیا جو اسے آنے والی نسلوں کے لیے ایک پارک کے طور پر قائم اور منظم کرے ۔ — اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ کارن وال پارک لوگوں کے لطف اندوز ہونے کے لیے ہمیشہ مفت رہے گا، اس نے اسے فنڈ دینے کے لیے ارد گرد کی زمین بھی خرید کر تحفے میں دی ۔ آج، کارن وال پارک ٹرسٹ بورڈ، جو کارن وال پارک کا نظم و نسق چلاتا ہے، ان کی خواہش کا احترام کرتا ہے ۔ تمام نیوزی لینڈ کے باشندوں کو مفت میں نیوزی لینڈ کے سب سے بڑے شہر کے قلب میں فطرت سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔
یہ صرف ایک پارک نہیں بلکہ آکلینڈ کی زندہ تاریخ کا ایک نمونہ ہے ،425 ایکڑ (172 ہیکٹر) پر پھیلا ہوا یہ پارک ، آکلینڈ کے قدیم ورثے، ماحولیات، زراعت، جنگلی حیات، اور ماوری تاریخ کے مناظر کو روشن کر دیتا ہے ۔
یہ جگہ پہلے ون ٹری ہل سٹیٹ کہلاتی تھی ۔ 1901 میں یہ سرزمین کارن وال اور یارک کے ڈیوک اور ڈچز کے اعزاز میں ‘کارن وال پارک’ بن گئی جو اس وقت نیوزی لینڈ کا دورہ کر رہے تھے۔
ون ٹری ہل کا انتظام آکلینڈ کونسل اور ٹیونا مونگا اتھارٹی کرتی ہے جبکہ کارن وال پارک کا انتظام کارن وال پارک ٹرسٹ کرتا ہے ۔ کارن وال پارک کی زمین کئی نسلوں سے کاشتکاری کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے ، ماوری لوگوں نے یہاں بھیڑوں اور گائیوں کے بڑے بڑے فارم بنا رکھے تھے ، ٹرسٹ نے پہلے ان فارمز کو لیز پر دیا مگر 1920 کے بعد سے ٹرسٹ ان فارمز کا تمام انتظام خود کرتا ہے ۔ یہ فارم پارک کے بیچوں بیچ موجود ہیں ، لکڑی کے فینس لگا کر ان کی حد بندی کی گئی ہے ۔
پہاڑی کی چوٹی پر سر جان لوگن کیمبل کی قبر ہے ۔ ان کی خواہش کے مطابق ان کی قبر کے سرہانے ایک اوبلیسک کھڑا کیا گیا ہے ۔ ماوری روایات کے مطابق یہ پتلی لمبی چھڑی نما یادگاری نشان ان کے دیوتا کی علامت ہے ۔ سر جان کی خواہش پر اس بلند مقام پر یہ علامتی نشانی نصب کرنا ان کی انسان دوستی اور رواداری کو ظاہر کرتا ہے ۔
: رنگیٹوٹو جزیرہ
ہوراکی خلیج کے جزیروں میں یہ سب سے کم عمر جزیرہ ہے جو تقریباً 700 سال قبل آتش فشاں دھماکوں کے باعث سمندر سے نمودار ہوا تھا۔ یہ آکلینڈ کے شمال مشرق میں تقریباً 8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔جزیرے کی اونچائی 260 میٹر ،اور رقبہ 2311 ہیکٹر ہے ۔ یہ ایک کون کی شکل میں آکلینڈ کے بیشتر حصوں سے دکھائی دیتا ہے ۔
فیریز، آکلینڈ ڈاؤن ٹاؤن فیری ٹرمینل اور ڈیون پورٹ سے رنگیٹوٹو وارف تک روزانہ چلتی ہیں۔ تاہم، جزیرے پر محدود سہولیات کے باعث، آپ کو واپسی کے لئےآخری فیری پکڑنے کے لئے وقت پر فیری ٹرمنل پر پہنچنا ضروری ہے۔ورنہ رات جنگل میں گزارنے کے لئے تیار رہیں ۔ جزیرہ جنگلات اور سیاہ آتش فشاں چٹانوں سے ڈھکا ہوا ہے ۔ اسے پیسٹ فری یعنی کیڑوں سے پاک علاقہ قرار دیا گیا ہے جس کے باعث یہاں پودوں کی 200 سے زائد انواع پھل پھول رہی ہیں۔ جنگل میں سفر کے دوران نایاب پرندوں کی دلکش آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔ یہاں لاوہ سے بنی غاریں دیکھنے کے لائق ہیں۔ پیسٹ کنٹرول ایریا ہونے کے باعث اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ جزیرے پر اترنے سے پہلے آپ کے جوتے صاف ہوں ۔
الغرض آکلینڈ ایک ایسا شہر ہے جو قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ ثقافتی رنگارنگ اور جدت لئے ہوئے ہے ۔ جدید عمارتوں سے مزین اس شہر میں قدرتی دلکشی سے لطف اندوز ہونے کے لئے آپ کو کہیں دور نہیں جانا پڑتا ۔ بحرالکاہل اور بحیرہ تسمان کے وسیع دامن میں پھیلے جزائر کی جھلک شہر کی گہما گہمی میں بھی دکھائی دے جائے گی ۔ سرسبز پہاڑی راستے آنے والے مسافروں کو مہم جوئی کی دعوت دیتے ہیں ۔ یہ خوبصورت خطہ ارض اپنی سیر کرنے والوں کو بحرالکاہل کے وسیع دامن میں پھیلے جزیروں کی پراسرار دنیا کو دیکھنے اور جاننے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔
:یہ بھی پڑھیئے
آکلینڈ کے بارے میں (حصہ اول) About Auckland (Part I)