الفاظ کی طاقت جو زندگی بدل سکتی ہے | The power of words that can change lives
ہمارا دماغ قدرت کی صناعی کا شاہکار ہے ۔ اس میں بے انتہا طاقت ہے ۔ جب ہم اسے مثبت افکار کی آماجگاہ بنا لیتے ہیں تو ہماری زندگی بدلنا شروع ہو جاتی ہے ۔ ہمارا دماغ جس انداز سے سوچتا ہے اس کا اظہار ہمارے الفاظ کے ذریعے سے ہوتا ہے ۔ الفاظ میں بہت طاقت ہوتی ہے اگر انہیں عقلمندی سے استعمال کیا جائے تو یہ زندگی بدل سکتے ہیں ۔
ہم جانتے کہ الفاظ دوسروں پر کتنا اثر ڈالتے ہیں ۔ دُکھ دینے والے الفاظ دوسروں کی روح تک کو کچل ڈالتے ہیں جبکہ مثبت اور حوصلہ افزائی کے انداز میں بولے گئے الفاظ انسان کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں ۔
ایک ماں کی کہانی میری نظروں سے گزری جس کے مثبت الفاظ نے اُس کے بیٹے کی زندگی بدل دی اور وہ انسانی تاریخ کا عظیم ترین موجد بن گیا ۔ یہ بیٹا امریکہ کا عظیم موجد تھامس ایلوا ایڈیسن تھا ۔
تھامس ایڈیسن سات برس کا تھا ، ایک روز وہ سکول سے گھر آیا تو اُس نے ایک رُقعہ اپنی والدہ کے ہاتھ میں تھمایا جو اُس کے استاد نے اس کی والدہ کے لئے دیا تھا۔
رقعہ پڑھ کر اس کی والدہ کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے ۔ تھامس کے استفسار پر اس کی ماں نے بتایا کہ اس میں لکھا ہے کہ آپ کا بیٹا بہت با صلاحیت ہے اور اس سکول میں اتنے قابل اساتذہ نہیں جو اسے پڑھا سکیں براہِ کرم آپ خود اسے پڑھائیں۔
ایڈیسن کی والدہ نے اپنے بیٹے کے لئے ایک بہترین ھوم سکولنگ کا معمول تیار کیا ۔ ایڈیسن نے سکول کو خیر باد کہا اور اپنی والدہ سے تعلیم حاصل کرنے لگا۔
جب ایڈیسن کی والدہ کا انتقال ہوا ایڈیسن اس صدی کا سب سے بڑا موجد بن چکا تھا ۔ ایک دن اپنے پرانے خاندانی مکان میں کچھ کاغذات کی تلاش کے دوران اسے بُھورے رنگ کے کاغذ پر لکھا ایک خط دکھائی دیا ۔ یہ وُہی رقعہ تھا جو سکول کے ابتدائی دور میں اُس کے استاد نے اُس کی والدہ کو دینے کے لئے لکھا تھا ۔ اُس نے رقعہ پڑھا تو اُس میں لکھا تھا “آپ کا بیٹا دماغی طور پر بیمار ہے ہم اسے اپنے ادارے میں پڑھنے کی اجازت نہیں دے سکتے ” رقعہ پڑھ کر ایڈیسن گھنٹوں روتا رہا ۔ اس نے اپنی ڈائری میں لکھا “تھامس ایلوا ایڈیسن جو ایک دماغی مریض تھا اُس کی ہیرو ماں نے اسے صدی کا سب سے عظیم موجد بنا دیا ۔
ایڈیسن کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ اُس کی والدہ اُس کے استاد کے پاس گئیں اور کہا کہ وہ اُسے سکول سے فارغ مت کریں مگر اُس نے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی آخر کار نینسی ایڈیسن نے اُسے خود گھر میں پڑھانے کا فیصلہ کیا اُسے اپنے بیٹے کی صلاحیتوں پر پورا یقین اور بھروسہ تھا اسی وجہ سے اُس کے بیٹے نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بھروسے کو کبھی نہیں توڑے گا ۔
ایڈیسن نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں لکھا کہ ‘میری والدہ نے ہی میری شخصیت کی تعمیر کی ۔ اُسے مجھ پر اتنا اعتماد تھا کہ مجھے یہ محسوس ہونے لگا کہ میری زندگی میں ایک ایسی ہستی موجود ہے جسے میں کسی حال میں مایوس نہیں کر سکتا ۔
ماہرین کے مطابق حوصلہ افزا جملے ایک مثبت اعصابی ردّ عمل کو جنم دیتے ہیں ۔ ایک سائنسدان جان ایلکز نے مختلف تجربات کے نتیجے میں پایا کہ محض ایک مثبت عمل کے بارے میں بلند آواز سے دہرانے سے ہی دماغ کے وہ حصے جو اس عمل کے لئے ذمہ دار ہوتے ہیں متحرک ہو جاتے ہیں ۔ جب ہم مثبت جملے دہراتے ہیں تو ہمارا دماغ جسمانی طور پر ردعمل دیتا ہے ۔
جاپان کے ایک مصنف ماساروایموتو نے 1999 میں اپنی کتاب ,دی میسیج فرام واٹر, میں لکھا ہے کہ پانی بھی زندگی رکھتا ہے ۔ یہ آپ کی سوچ , خیال , گفتگو اور الفاظ سے متاثر ہوتا ہے .یہ انسانی جسم سے نکلنے والی شعاعوں اور الفاظ کے اثر کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور جب یہی پانی انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ ذہن اور صحت میں تبدیلیاں لاتا ہے ۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے جاپان کے ہیڈوانسٹیٹیوٹ نے تجربات کئے. پانی کے دو نمونے لئے گئے ایک پر انگریزی الفاظ فیملی ، لو اور شکریہ لکھا گیا اور دوسرے پر , یو میڈ می سک, لکھاگیا ۔ جب یہ جم کر برف بن گئے تو خوردبین کے ذریعے برف کے زرات کی تصویر لی گئی ۔ نتائج حیران کن تھے ۔ جس پانی پر فیملی, لو اور شکریہ لکھا تھا اُس کے کرسٹلز بہت خوبصورت اور دلکش تھے جس پانی پر , یو میڈ می سک, لکھا تھا اس کے کرسٹلز گندے اور بدصورت تھے۔
جب پانی پر الفاظ کا اثر اتنا گہرا ہے تو انسان تو پھر اشرف المخلوقات ہے ۔ اُس کے لئے الفاظ زخم بھی ہیں اور مرہم بھی. الفاظ بدلیں آپ کی زندگی بدل جائے گی ۔