جب کوئی ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ What happens when a country defaults?

جب کوئی ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ What happens when a country defaults?

 بین الاقوامی مالیات کے تناظرمیں، ملک کے نادہندہ ہونے کا تصور اہم اقتصادی اور سیاسی نتائج کا حامل ہے۔ جب کوئی ملک ڈیفالٹ کرتا ہے، تو وہ بنیادی طور پر اپنے قرض دہندگان کے لیے اپنی مالی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، جس میں دوسرے ممالک، بین الاقوامی تنظیمیں، یا نجی قرض دہندگان شامل ہو سکتے ہیں۔ اس مضمون کا مقصد اس بات پر روشنی ڈالنا ہے کہ جب کوئی ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے اور اس طرح کے واقعے کے زیر اثر ملک پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

 ملک ڈیفالٹ کب ہوتا ہے؟

 ایک ملک ڈیفالٹ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی قوم اپنے قرض کی بروقت ادائیگی کرنے سے قاصر ہوتی ہے یا اپنے قرض کے معاہدوں کی شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں یہ ناکامی مختلف وجوہات کی بنا پر ہو سکتی ہے، جیسے کہ معاشی بدحالی، سیاسی عدم استحکام، قرض کی غیر معمولی سطح وغیرہ ۔

 

 معاشی نتائج

عالمی مالیاتی منڈیوں تک رسائی میں خلل

  ملک کا ڈیفالٹ عالمی مالیاتی منڈیوں تک رسائی میں خلل ڈال سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اتار چڑھاؤ اور غیر یقینی صورتحال بڑھ جاتی ہے۔ سرمایہ کار ایسے ممالک میں قرض دینے یا سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاتے ہیں جن میں پہلے سے طے شدہ خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں حکومت اور کاروباری اداروں کو بلند شرح سود پرقرض لینے پڑتے ہیں ۔ اس سے اقتصادی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جاتاہے، ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اور سرمایہ کاری کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ۔

 کرنسی کی قدر میں کمی

 کسی ملک کے ڈیفالٹ ہونے پر کرنسی کی قدر میں تیزی سے کمی ہوتی ہے ۔ کرنسی کی قدر میں گراوٹ مہنگائی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ درآمدات زیادہ مہنگی ہو جاتی ہیں، جس سے شہریوں کی قوت خرید کم ہو جاتی ہے اور معیار زندگی میں گراوٹ آتی ہے۔ مزید برآں، یہ صورتحال بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک ناموافق ماحول پیدا کر دیتی ہے اور غیر ملکی کرنسیوں میں متعین بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی لاگت مزید بڑھ جاتی ہے ۔

 کیپٹل فلائٹ

ڈیفالٹ کرنے والے ممالک کا سرمایہ تیزی سے ملک سے باہر منتقل ہو جاتا ہے ۔ اکثر سرمایہ کار اور افراد اپنے اثاثوں کو ملک سے باہر محفوظ ٹھکانوں میں منتقل کرتے ہیں جس کے باعث معیشت پر دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہونے لگتے ہیں ، مالیاتی نظام پر اعتماد کمزور ہو جاتا ہے، جو شدید معاشی بگاڑ کا باعث بنتا ہے ۔

جس طرح سرمایہ کار اپنا پیسہ ملک سے باہر منتقل کرنا چاہتے ہیں، اسی طرح مقامی لوگ اپنا پیسہ بینکوں سے باہر منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہوتا ہے کہ حکومت بین الاقوامی قرضوں کی ادائیگی کے لیے ان کے بینک ڈپازٹس پر زبردستی قبضہ کر لے گی۔ چونکہ ہر کوئی ایک ہی وقت میں رقم نکالنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے بینک میں سرمائے کی کمی ہو جاتی ہے ۔ بہت سے لوگ اپنے ڈپازٹس کی وصولی نہیں کر پاتے اور اس کے نتیجے میں بحران مزید سنگین ہو جاتا ہے

اسٹاک مارکیٹ کریش

 مذکورہ بالا عوامل معیشت پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ جس کے اثرات سٹاک مارکیٹ میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں منفی رحجان برقرار رہتا ہے سٹاک مارکیٹ کریش کر جاتی ہے ۔ قرض کے ڈیفالٹ کے دوران مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں 40% سے 50% تک کی کمی آ جاتی ہے ۔

 سیاسی اور سماجی اثرات

 اقتصادی خودمختاری میں کمی

قرض کی ادائیگی میں ناکام ہونے کے نتیجے میں مالی خودمختاری ختم ہو سکتی ہے۔ بین الاقوامی قرض دہندگان اکثر اپنے ملک میں بااثر ہوتے ہیں، وہ اپنے ممالک کو نادہندہ ممالک پر تجارتی پابندیاں عائد کرنے پر راضی کرتے ہیں۔ ان پابندیوں کے باعث متاثرہ ممالک کی درآمدات اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں ۔ زیادہ تر ممالک اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تیل درآمد کرتے ہیں ایسی پابندیوں کے باعث تیل کی درآمد متاثر ہوتی ہے اور توانائی کا بحران پیدا ہوتا ہے جس سے پیداواری صلاحیت میں کمی آ خاتی ہے ۔ معاشی پالیسیوں کے حوالے سے ملک خودمختاری سے اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے جس سے سیاسی اور سماجی بےچینی پیدا ہو سکتی ہے۔

 بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں تک رسائی میں مشکلات

: نادہندہ ممالک کو بین الاقوامی کیپٹل مارکیٹوں تک دوبارہ رسائی حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قرض دہندگان اور سرمایہ کار کریڈٹ کی توسیع کے بارے میں محتاط ہو جاتے ہیں، جو ملک کی عوامی سرمایہ کاری، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں، اور سماجی پروگراموں کو فنڈ دینے کی صلاحیت کو محدود کر دیتا ہے۔ اس سے اقتصادی ترقی پر طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

 جیو پولیٹیکل مضمرات

 ڈیفالٹس کے جغرافیائی اور سیاسی اثرات بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ وہ کسی ملک کے قرض دہندگان اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کو متاثر کر سکتے ہیں۔ قرضوں کے تنازعات سفارتی تعلقات کو کشیدہ کر سکتے ہیں اور علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں میں ملک کے موقف کو متاثر کر سکتے ہیں، ممکنہ طور پر اس کے جغرافیائی سیاسی اثر و رسوخ میں کمی کر سکتے ہیں۔

بیروزگاری میں اضافہ

پرائیویٹ فرمیں اور حکومت دونوں ہی معاشی ماحول کے منفی اثرات سے متاثر ہوتے ہیں۔ حکومت قرض لینے کے قابل نہیں رہتی اور ٹیکس ریونیو بھی کمی واقع ہو جاتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ مزدوروں کو وقت پر تنخواہ نہیں دے پاتے۔ اس کے علاوہ، چونکہ معیشت میں منفی رحجان پایا جاتا ہے ، لوگ مصنوعات کا استعمال کم کر دیتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر، جی ڈی پی نیچے آتا ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔

شرح سود میں اضافہ

سب سے فوری اثر یہ ہے کہ بین الاقوامی بانڈ مارکیٹ میں قوم کے لیے قرض لینے کی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اگر حکومت خود زیادہ شرح پر قرض لے رہی ہے تو کارپوریٹس کو بھی بڑھے ہوئے نرخوں پر قرض لینا ہوگا۔ نتیجے کے طور پر، شرح سود میں اضافہ ہوتا ہے اور بانڈز کی قیمت جو پہلے جاری کیے گئے تھے مزید گر جاتی ہے ۔ تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ بینک قرض لینے والوں کو زیادہ شرح سود پر قرض دیتےہیں جو کاروباری حضرات کی مشکلات میں ا ضافہ کر دیتا ہے ۔

 ڈیفالٹ سے بچنےکے لیے دانشمندانہ معاشی اور انتظامی فیصلوں، شفافیت اور موثر گورننس کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، ڈیفالٹ کا سامنا کرنے والے ممالک کو بین الاقوامی تعاون اورمالی امداد کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ انہیں مشکل حالات سے نکالا جا سکے اور ڈیفالٹ کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )