شباب سے پہلے (حصہ اول) Shabab say pehlay

شباب سے پہلے (حصہ اول)     Shabab say pehlay
میرے والد ملک شریف احمد ملتان ہاٸی کورٹ اورسپریم کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں

x

ماہرین کے مطابق ایک مثالی باپ کا کوئی ایک ماڈل نہیں اصل بات جذباتی طور پر بچوں کے قریب ہونا اور ان کی ضروریات کو سمجھنا اور ان سے رابطہ بنانا ہے ۔اس تناظر میں دیکھا جاۓ تو میرے والد ایک کامیاب باپ کا مثالی ماڈل ہیں ۔ میرے والد ملک شریف احمدایڈووکیٹ ملتان ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ انہیں مضمون نگاری سے خاص شغف ہے۔ زمانۂ طالبعلمی میں لکھی گئی ایک ڈائری مجھے ملی جو کہ انہوں نے  1955میں اکیس برس کی عمر میں تحریر کی اور ان کی پختگئ تحریر کی عکاس ہے ۔ اس ڈائری سے اقتباسات پیش خدمت ہیں جو کہ بہت سے لوگوں کے لۓ دلچسپی کا باعث ہوں گے۔

کل ایک کتاب پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ،شباب سے پہلے،جس میں موجودہ دور کے نامور ادیبوں کے بچپن کے حالات درج تھے ۔ یہ کتاب ختم کر کے مجھے بھی تحریک ہوئی کہ اپنے بچپن کے حالات قلمبند کروں ۔ ۔اگرچہ میں نہ تو ادیب ہوں نہ شاعر نہ بڑا آدمی اور نہ ہی یہ سطور مجھے کسی کو دکھانا ہیں اس لئے محض اپنی دلچسپی کی خاطرچند ایک سطور تحریر کر رہا ہوں تا آنکہ اپنے ماضی کو ایک نظر دیکھ سکوں۔

آج سے بائیس برس پہلے سکھوں کے متبرک شہر امرتسر کے علاقہ کڑاہ خزانہ کے ایک بوسیدہ مکان کی تنگ وتاریک کوٹھڑی میں پیدا ہوا۔ بچپن کے دنوں کی یاد ذہن میں بہت دھندلی ہے مگر اتنا یاد ہے کہ میں منہ میں چاندی کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوا۔ والدین بہت تنگدستی اور عسرت کے حالات میں تھے اس لیۓ میں یقیناً ان حالات میں ان کی خوشیوں میں اضافے کا باعث نہ بن سکا۔ جب میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو ننھیال میں پایا۔ میرے والد صاحب تلاش معاش کے سلسلے میں گھر سے باہر رہتے تھےاور ہم لوگ اپنے نانا،نانی اور ماموں کے ساتھ امرتسر میں رہتے تھے۔ والد صاحب کبھی کبھارکچھ رقم بھیج دیتے جس سے جسم اور روح کا رشتہ قائم رہتا تھا ۔ ظاہر ہے ایسی حالت میں چاؤ چونچلے نصیب نہ تھےجو امیر گھرانے کے بچوں کے ہوتے ہیں ۔ بعض اوقات میں ضد کرتا تو میری ضد کبھی پوری نہ کی جاتی۔ چاۓ اور باقر خانی اور لینے پر ضد کرتا تو میری نانی میری امیدوں کے خلاف تھوڑی بھی مجھ سے چھین لیتی اور مجھے گھر سے باہر نکال دیتی میں باہر پڑا روتا رہتا مگر کوئی مجھے منانے نہ آتا ناچار خود ہی رو دھو کر چپ ہو رہتا۔ اس طرح کے اور بھی واقعات کا دھندلا سا نقشہ میرے ذہن میں ہے ۔

 میں بمشکل تین برس کا تھا کہ ایک روز کھیلتے ہوۓ چھڑی کی نوک میرے پیٹ میں لگ گئ جس سے معمولی سا زخم ہو گیا مگر زخم بڑھتے بڑھتے خطرناک صورت اختیار کر گیا اور پیٹ میں پیپ پڑ گئ ۔ میں نہایت نحیف و نزار ہو گیا بچنے کی کوئی صورت نہ تھی ۔ اس بیماری میں میری والدہ نے میرے لیۓ بہت دکھ اٹھاۓ ۔ تمام رات مجھے اٹھاۓ اٹھاۓ کمرے میں پھرتی رہتیں میں ایک پل بھی آرام سے نہیں بیٹھنے دیتا تھا ۔ میری والدہ میری تکلیف سے ازحد فکر مند تھیں ایک دن مجھے اٹھاۓ سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں کہ غش آ گیا دھڑام سے نیچے آ رہیں مگر محبت مادری کا یہ عالم کہ بیہوشی کی حالت میں بھی مجھے سینے سے چمٹاۓ رکھا اور کوئی ضرب نہ آنے دی خود بری طرح زخمی ہو گئیں ۔ سچ ہے کہ بچے کی پرورش میں ماں جو دکھ اٹھاتی ہےوہ اس قدر زیادہ ہوتے ہیں کہ اولاد ماں کا احسان نہیں چکا سکتی ۔ آخر کار مجھے ایک ہندو ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا اس نے میرے پیٹ کا آپریشن کیا ۔ بہت دنوں تک مرہم پٹی ہوتی رہی تب جا کر آرام آیا اس طرح میں نے دوبارہ نئی زندگی حاصل کی

مزید پڑھیئے شباب سے پہلے ( حصہ دوئم) shabab say pehlay

 

 

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (1)
  • comment-avatar
    Sajida 1 year

    Nice selection

  • Disqus (0 )