لوگوں کو صرف تعلیم دینا ہی کیوں کافی نہیں Why is it not enough to just educate people?
جرمنی میں ایک ہائی اسکول کی پرنسپل ہر تعلیمی سال کے آغاز میں اپنے اساتذه کو ایک خط بھیجا کرتی تھی جس میں وه بتایاکرتی کہ وه یہودی ہونے کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کےمظالم کا نشانہ بنی ۔ وه اپنے خط میں کچھ اس طرح کا،مضمون تحریر کرتی تھی
میں ایک حراستی کیمپ کے زنده بچ جانے والوں میں سے ایک ہوں ۔ میری آنکھوں نے ایسی چیزیں دیکھی ہیں جو کسی انسان کو نہیں دیکھنی چاہئیں۔ اچھے تربیت یافتہ انجینئروں کے بنائے ہوئے گیس چیمبر، جہاں ہزاروں لوگوں نے زہریلی گیس کےباعث تڑپ تڑپ کر جان دی ، اچھے تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے ذریعہ بچوں کوزہر دے کر موت کی نیند سلایا گیا ، اچھی تربیت یافتہ نرسوں کے ذریعے چھوٹے بچوں کو زہریلے انجیکشن دئے گئے ، ہائی اسکول اور یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد کےہاتھوں گولی مار کر اور جلا کر موت کے گھاٹ اتارے گئے لوگ ۔ اس لیے مجھے ہمیشہ اپنے طریقہ تعلیم کے درست ہونےپرشک رہا ہے ۔
میں چاہتا ہوں کہ کہ آپ اپنی تمام تر کوششیں اپنے طلباء کو ایک بہتر انسان بنانے میں صرف کریں۔ ، با علم درندے اور وسائل سے بھرپور نفسیاتی مریض پیدا نہ ہونے دیں۔ خواندگی سے تبھی کوئی فرق پڑے گا اگر اس سے ہمارے بچوں کو اچھا انسان بننے میں مدد ملے۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے۔
محض اپنی ذات کی خاطر تعلیم فراہم کرنے کے بجائے انسانیت اور ہمدردی کو فروغ دینے کے لئے تعلیم کے استعمال کو اجاگرکریں ۔ ہولوکاسٹ کے دوران ہونے والے مظالم، نفرت اور تعصب کے بےقابو ہونے سے پیدا ہونے والے خطرات کی ایک المناک یاد دہانی ہے۔
یہ بہت اہم ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ ہمارا تعلیمی نظام اور معاشره مجموعی طور پر تمام لوگوں کےدرمیان تفہیم اور احترام کو فروغ دینے کے لیے کام کرے، چاہے ان کا پس منظر کچھ بھی ہو۔
یہ خط تدریسی عمل کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے ۔ ارسطو نے تعلیم کا بنیادی مقصد کردار کی نشوونما کو کرار دیا ہے ۔اگرچہ ہمارے ہاں مختلف مضامین کے ماہر یا ہنرمند لوگوں کی بہت قدر کی جاتی ہے لیکن اگر یہ قابلیت ہمیں ایک اچھا انسان نہیں بناتی تو یقینا ہمارے نظام تعلیم میں کچھ خرابی ضرور ہے ۔