نیوم، دنیا کا سب سے مہنگا شہر جہاں نہ سڑکیں ہوں گی اور نہ ہی گاڑیاں Neom, the most expensive city in the world where there will be no roads and no cars
ماہرین کے مطابق دنیا میں فوسل فیول کی مقدار مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے سعودی عرب جو دنیا کے کل تیل کی پیداوار کا 16 فیصد مہیا کرتا ہے اس کے ذخائر بھی تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگلے 20 سالوں میں سعودی تیل اتنا کم ہو جائے گا کہ وہ سعودی اکانومی کو سپورٹ کرنے کے قابل نہیں رہے گا ۔وہ سعودی عرب جس کی جی ڈی پی کا 40 فیصد سے زیادہ تیل کی برآمد پر منحصر ہے اس کے لئے یقینا یہ ایک بڑی خبر ہے ۔ اگر کروڈ آئل گیس اور ٹیکس جو اسی پروڈکٹ سے منسلک اکاؤنٹ سے آتے ہیں انہیں بھی شامل کیا جائے تو سعودی عرب کا 75 فیصد فسکل ریونیو اسی سے آتا ہے ۔صرف ایک ہی نان کرئیٹو پروڈکٹ پر اتنا بڑا انحصار بہت بڑی حماقت ہے ۔2015 کے پیرس ایگریمنٹ کے مطابق تمام ممالک اپنی انڈسٹری اور گاڑیوں کو ری نیوایبل اور نان فوسل فیول پر شفٹ کرتے جا رہے ہیں ۔ چنانچہ سعودی عرب کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ ان کی بقا اسی میں ہے کہ وہ جلد از جلد خود کو بدل لیں ۔
اسی چیلنج کو دیکھتے ہوئے سعودی ولی عہدمحمد بن سلمان نے ٹورزم کو فروغ دینے کے لئے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے جس میں سب سے اہم نیوم سٹی کی تعمیر ہے۔ سعودی عرب ایک ایسا جدید شہر تعمیر کرنے جا رہا ہے جس کے بارے میں اس کے تعمیر کرنے والوں کا دعوٰی ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس سے زیادہ حیرت انگیز شہر تعمیر ہی نہیں کیا گی۔
سعودی حکومت اس شہر کی تعمیر میں نہ صرف جدت کو مدنظر رکھ رہی ہے بلکہ اس کے ماحول کو بہتر بنانے کے لئے یہاں دس کروڑ درخت بھی لگا رہی ہے جس کی مدد سے صحرا کو جنگل میں تبدیل کر دیا جائے گا ۔جدید طرز کی ریل گاڑیاں چلائی جائیں گی ۔بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جائیں گی اور یہی سب نہیں بلکہ ایک نقلی چاند بھی بنایا جائے گا۔
اس شہر کا نام نیوم رکھا گیا ہے جس کے معنی ہیں نیا مستقبل۔
اس شہر کا منصوبہ پہلی مرتبہ 2017 میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پیش کیا جو کہ ان کے ویژن 2030 کا اہم ترین حصہ ہے۔
یہ شہر صوبہ تبوک میں سمندر کے کنارے پر تعمیر کیا جا رہا ہے ۔اس کا مجوزہ رقبہ 26000 مربع کلومیٹر ہے۔ سعودی حکومت کی خواہش ہے کہ اس کا پہلا فیز 2025 میں ہی مکمل کر لیا جائے۔ اس شہر میں ایک علاقہ 9 سٹی کے نام سے بنایا جائے گا جس میں نہ کاریں ہوں گی نہ ہی کاربن امیشن کا کوئی بھی دوسرا ذریعہ ہو گا۔
:یہ بھی پڑھیئے
اس شہر کو نیوم، دی لائن سٹی کا نام اس لئے دیا گیا کہ اس کا ڈیزائن 170 کلومیٹر لمبی لائن اور 500میٹر اونچی عمارتوں ہر مشتمل ہے یہ لائن سٹی چوڑائی میں بہت کم رکھا گیا جو کہ 200 میٹر کے قریب ہے ۔ لائن سٹی کا منصوبہ مکمل طور پر بالکل نیا نہیں ہے کئی سال پہلے انجینئرز نے کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ لوگوں کوایڈجسٹ کرنے کے لئے اس قسم کے شہر کا منصوبہ پیش کیا تھا۔ کچھ ملکوں نے اس قسم کے شہر تعمیر بھی کئے لیکن سعودی عرب کا یہ شہر ایک انوکھی دلکشی اور تصور لئے ہوئے ہے ۔ اس شہر کو خاص طور پر ٹورسٹ کی اٹریکشن کے لئے بنایا جانا ہے تاکہ دنیا کے بڑے بڑے بزنس ٹائیکون یہاں انوسٹ کریں ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس شہر میں نہ کاریں ہوں گی نہ ہی سڑکیں تاکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم سے کم ہو کیونکہ اس شہر کی تعمیر کے پیچھے بنیادی تصور ہی یہ ہے کہ یہ ماحول دوست شہر ہو گا جس میں قدرتی ماحول اور آب و ہوا کو اس کی اصل حالت میں برقرار رکھا جائے۔ ٹرانسپورٹ کے لئے زیرزمین ایک طویل سرنگ تعمیر کی جائے گی جس میں ہائی سپیڈ ٹرین چلے گی جس کو بھی شہر کے کسی بھی حصے میں جانا ہو گا وہ لفٹ کے ذریعے اس سرنگ میں جائے گا اور ٹرین میں بیٹھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جائے گا۔اس پورے 170 کلو میٹر کے علاقے کو یہ ٹرین صرف 20 منٹ میں کور کر لے گی ۔جب یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا تو قریبا 9 ملین لوگوں کو یہاں آباد کیا جائے گا اور 40 لاکھ لوگوں کو ملازمتیں دی جائیں گی
اس شہر کی توانائی کی تمام ضرورتیں ری نیوایبل انرجی سے پوری کی جائیں گی، اس سے کاربن ایمیشن صفر ہو جائے گی ۔ یہاں رہنے والے لوگوں کے لئے صحت سمیت تمام سہولیات 5 منٹ کے پیدل مسافت پر ہوں گی۔ اس میں اڑنے والی کاریں ہوں گی اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے چلنے والے روبورٹ ہوں گے جو مختلف خدمات مہیا کریں گے ۔یہاں مستقبل کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو ڈویلپ کرنے کے لئے بھی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔
مکمل ہونے کے بعد یہ ایک مہنگا شہر تو ہو گا ہی لیکن ساتھ ہی جدید ٹیکنالوجی سے مزین ایسا پہلا شہربھی ہو گا جہاں ہر ممکن حد تک جدید سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اس شہر کی تعمیر میں 500 ارب ڈالر کا سرمایہ خرچ ہو گا
۔
نیوم جیسے عظیم الشان پروجیکٹ پر زیادہ تر سرمایہ کاری سعودی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ ہی کر رھا ہے ۔ بین الاقوامی انوسٹر کو راغب کرنے میں ابھی تک سعودی عرب کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ۔چنانچہ حکومت نے اس منصوبے کے حجم میں کمی کر دی ہے مثلا شروع میں 15 لاکھ لوگوں کو یہاں بسانے کا منصوبہ تھا جسے اب کم کر کے 3 لاکھ کر دیا گیا ہے ۔ اسی طرح شہر کی لمبائی بھی 170 کلومیٹر سے کم کر کے 2.4 کلومیٹر کر دی گئی ہے ۔اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ پروجیکٹ اب مشکلات کا شکار ہو رھا ہے ۔محسوس کیا جا رھا ہے کہ یہ کام شروع میں جتنا آسان لگ رھا تھا اتنا ہے نہیں دوسرے یہ کہ اتنے مہنگے شہر میں عام لوگوں کا بسنا ممکن نہیں یعنی صاحب حیثیت لوگوں کو یہاں رہنے کے لئے راغب کرنا پڑے گا جو کہ بذات خود اسے بنانے سے بڑا چیلنج ہو گا ۔
انسانی حقوق کے حوالے سے بھی اس پروجیکٹ پر سوال اٹھنے لگے ہیں کیونکہ اس خطے میں رہنے والے قدیم آباد کاروں کو یہاں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا جا رھا ہے ۔
اب سعودی حکومت کی طرف سے آفیشل طور پر اس بات کا اعلان کر دیا گیا ہے کہ یہ منصوبہ ابتدائی طور پرجس طرح پیش کیا گیا تھا ویسا نہیں بن پائے گا ۔
جس طرح سوچا گیا تھا اگر یہ منصوبہ ویسے ہی پورا ہو جاتا تو واقعی یہ ایک عجوبہ ہوتا لیکن تیل کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے سعودی عرب کے لئے اس پروجیکٹ پر پیسہ لگانا ممکن نہیں ۔دوسرے ایسے وسیع منصوبے پر کام کا آغاز قوم کے جمہوری اتفاق رائے سے ہونا چاہئے جس کا بدقسمتی سے سعودی عرب میں کوئی تصور نہیں چنانچہ بین الاقوامی انوسٹر اس بارے میں بھی شکوک کا شکار ہیں کہ اگر کل کسی اور خاندان کی حکومت آ گئی تو اس منصوبے کا مستقبل کیا ہو گا۔
آج سعودی عرب اس مقام پر آ کھڑا ہوا ہے کہ اس کے پاس پیچھے ہٹنے کا کوئی چانس نہیں ۔ ساڑھے تین کروڑ سعودیوں کا مستقبل اس پتلی لکیر پر بنے شہر پر ٹک گیا ہے جس کے دونوں جانب شیشے کی دیوار ہے جس پر لگنے والا ایک بھی پتھر سب کچھ زمیں بوس کر دے گا۔