شباب سے پہلے ( حصہ دوئم) shabab say pehlay

شباب سے پہلے ( حصہ دوئم)   shabab say pehlay
نامور ادیبوں کی خودنوشت سے متاثر ہو کر تحریر کردہ ایک طالبعلم کی ڈاٸری
 میرے والد صاحب تلاش معاش میں ہم سے جدا رہتے تھےاس لیۓ میں والد صاحب سے بہت بعد میں مانوس ہوا ۔ میں اکثر والدہ صاحبہ سے پوچھا کرتا کہ ابا جی ہمارے پاس کیوں نہیں رہتے تو والدہ خاموش رہتیں ۔ ایک دن میرے ابا جان اچانک آ گیۓ میں ان کی ٹانگوں سے چمٹ گیااور رو رو کر کہنے لگا کہ ابا جان ہمیں چھوڑ کرنہ جانا ، ابا جی نے مجھے گلے سے لگا لیااور اس کے بعد واقعی میرے ابا جی نے ہمیں کبھی نہ چھوڑا ۔

 

مجھے بچپن میں کسی چیز سے دلی نفرت تھی تو وہ سکول تھا  ۔ سکول کا چپڑاسی محلے کے لڑکوں کو لینے آیا کرتا تھا ۔ چپڑاسی  کا رنگ انگریزوں کی طرح سفید تھا اور وہ سفید رنگ کے کپڑے پہنتا تھا جن پر بہت زیادہ نیل لگا ہوتا تھا ۔ مجھے اس شخص سے بہت زیادہ خوف آتا تھا ۔ اسے دیکھتے ہی میرے اوسان خطا ہو جاتے مگر چارو ناچار مجھے اس کے ساتھ جانا پڑتا ۔ سکول جا کر میں گھر کی یاد میں آٹھ آٹھ آنسو روتااور آہیں بھرتا سبق کی طرف دھیان نہ لگتا ۔ چھٹی کی گھنٹی میرے لیۓ خوشی کا پیغام لاتی میں گھنٹی کی آواز سنتے ہی سب سے پہلے کمرے سے باہر نکلتااور سیدھا گھر کی راہ لیتا ۔ سکول سے نفرت کے باعث میں ہمیشہ یہ دعا مانگا کرتاتھا کہ یا اللہ ماسٹر صاحب کو اپنے پاس بلا لے اور سکول کی عمارت ملیا میٹ کر دے مگر ہر روزمیرے توقعات کے خلاف سکول کی عمارت جوں کی توں کھڑی ہوتی اور ماسٹر صاحب بھی بھلے چنگے موجود ہوتے اور اس طرح میری دعا کبھی قبول نہ ہوئی ۔

 

میں نے اصل پڑھائی لڈن میں آکر شروع کی  ۔ جب ہم لوگ لڈن میں آ گیۓ تو ہماری زندگی میں ٹھہراؤ اور سکون آ گیا ہم نے سکون اور فارغ البالی کی زندگی کا آغاز کیاجس کا احساس مجھے اس چھوٹی سی عمر میں ہی ہو گیا تھا ۔ اس سے پہلے چھ ماہ ہم اپنے بڑے ماموں کے پاس گگو میں رہے جو وہاں چھوٹے تھانے دار  تھے ۔ اس عرصہ میں بھی میں نے پڑھنے کی ناکام کوشش کی ۔ میں اور میرے ماموں کی لڑکی جو میری ہم عمر تھی اکٹھے سکول جایا کرتے تھے مگر پڑھنے کے بجاۓ کھیلنے پر زیادہ توجہ دی جاتی تھی اور علم کے موتی ہمارے ھاتھ نہ آۓ ۔ گھر میں شرارتوں ہی سے فرصت نہ ملتی ۔ ماموں زاد بہن ہم عمر ہونے کے باعث اچھا ساتھی ثابت ہوئی ۔ وہ چونکہ اکلوتی تھی اس لیۓ مجھ سے بہت ہل گئی ۔ اس زمانے کی شرارتیں منفردحیثیت کی تھیں ۔
مرغی کے دڑبے میں گھس جایا کرتا تھا کچھ دیر بیٹھ کر کڑ کڑ کرتا باہر آجاتا اور ایک چھوٹا سا سفید گیند سب کو دکھاتا کہ دیکھو میں نے انڈا دیا ہے ۔
ہم سب بچے اکٹھے ہو کر بیٹھ جاتے اور طے یہ پاتا کہ ہر ایک باری باری لطیفہ سناۓ ۔ اس عمر میں لطیفہ گوئی کا تو شعور نہیں تھا مگر اتنا جانتے تھے کہ لطیفہ سننے کےبعد ہنسا ضرور کرتے ہیں ۔ سنانے والا یونہی واہی تباہی بکے جاتا اور سننے والے خاتمے پر زور دار بناوٹی قہقہ لگاتے ۔ جب میری باری آئی تو میں باوجود کوشش کے لطیفہ نہ سنا سکا اور اپنی باری گزرنے پر دوسرے آدمی کے لطیفہ ختم کرنے پر باوجودکوشش کے قہقہ نہ لگا سکا ۔ پھر تو صاحب سب لوگ مجھ سے خفا ہو گیۓ اور میری وہ درگت بنی کہ توبہ ہی بھلی ۔

 

تھانہ میں ایک محرر تھا جو باتیں کرتے وقت بعض چیزوں کے نام بھول جایا کرتا تھا اور باوجود کوشش کے اس کے ذہن میں نام نہ آتا تب وہ زمین پر بیٹھ کر اس چیز کی شکل بنا کر مطلب واضح کرتا تھا ۔ میں اسے چھیڑنے کے لیۓ اس سے جا کر ادھر ادھر کی باتیں کرتا اور دوران گفتگو جان بوجھ کر انہی چیزوں کے نام بھولتا جن کے محرر صاحب بھولا کرتے تھے اور پھر شکل بنا کر واضح کرتا ۔ پہلے تو وہ ہنس کر ٹال دیا کرتے تھے مگر ایک روز وہ تنگ آۓ اور تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق مجھے اس زور کا طمانچہ مارا کہ میں چکرا گیا اور پھر محرر صاحب کے پاس جانے کا قصد کبھی نہ کیا ۔

 

 
CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )