Life of Pi is a story of overcoming difficulties – ” لائف آف پائی“مشکلات پر فتح پانے کی کہانی
چند روز پہلے ایک نہایت دلچسپ فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا جس کا نام ” لائف آف پائی ” ہے. یہ فلم انسانی نفسیات اور خدا پر انسان کے یقین اور توکل کی بہترین مظہر ہے ۔
ایک ناول نگار جو کہ کینڈا کا شہری ہے ہندوستان کا سفر کرتا ہے اور ہندوستان کے ایک چھوٹے سے شہر پونڈیچری میں اسے پائی پٹیل سے اس کی زندگی کی کہانی سننے کا موقع ملتا ہے جسے اس نے پائی ہی کی زبانی اپنے قارئین تک پہنچایا ہے ۔
پائی کے والد اسی قصبے میں ایک پرائیویٹ چڑیا گھر چلاتے تھے. پائی پیدائشی طور پر ہندو تھا مگر اس نے عیسائیت اور اسلام دونوں کا مطالعہ کر رکھا تھا. اس طرح وہ تینوں مذاہب کی پیروی کرنے لگا. جون 1977 میں اس کے والد نے کینڈا منتقل ہونے کا فیصلہ کیا . اس مقصد کیلئے انہوں نے ایک کارگو شپ سے جانے کا فیصلہ کیا. اس شپ پر عملے کے ارکان سمیت بہت سے جانور بھی بڑے بڑے پنجروں میں رکھے گئے تھے. سفر کے دوران انہیں طوفان کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں جہاز پانی میں غرق ہو گیا. طوفان کے شور اور عملے کی چیخ و پکار کے دوران پائی ایک لائف بورٹ سے چپک گیا. بہت سے جانور بھی پانی میں بہتے چلے جا رہے تھے. جہاز کے عملے نے اسے ایک لائف بورٹ میں پھینک دیا جہاں اس نے اپنے آپ کو ایک بندر, زیبرے اور ہائینہ کے ساتھ تنہا پایا. وہ سب کے سب صدمے کی کیفیت میں تھے. طوفان تھم چکا تھا. جہاز غرق ہو چکا تھا اور پائی کا تمام خاندان اس حادثے میں ہلاک ہو چکا تھا ۔
ہائینہ نے بندر اور زیبرے کو ہلاک کر دیا اور پھر کشتی کا وہ حصہ جو کہ ایک ترپال سے ڈھکا ہوا تھا وہاں سے ایک بنگال ٹائیگر جس کا نام رچرڈ پارکر تھا نمودار ہوا اور اس نے ہائینہ کو مار دیا. اب سمندر پرسکون ہو چکا تھا اور پائی اور رچرڈ پارکر اس کشتی میں تنہا رہ گئے تھے. اب پائی کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ وہ اس ٹائیگر کو سدھاتا اور مالک کی طرح اسے اپنی اطاعت پر مجبور کرتا ۔
لائف بورٹ میں کچھ راشن, اور تازہ پانی کے کین موجود تھے جسے پائی نے کئ روز تک استعمال کیا اس کے علاوہ وہ تازہ مچھلی پکڑتا خود بھی کھاتا اور رچرڈ پارکر کو بھی کھلاتا. دن گزرتے رہے کشتی کے دونوں مسافر ایک دوسرے کے ساتھ سفر کرتے رہے ۔
ایک روز ان کی کشتی ایک ایسے جزیرے پر آ کر رکی جو مٹی کے بجائے صرف پودوں کی جڑوں سے بنا تھا. پائی اور رچرڈ پارکر یہاں کچھ دن رکے, تمام دن جزیرے پر پھرتے اور رات کو رچرڈ پارکر کشتی میں جا کر سو جاتا. ایک روز پائی نے ایک درخت کے پھل میں انسانی دانت دیکھا اور تب اسے پتا چلا کہ یہ جزیرہ انسانوں کو کھا جاتا ہے. وہ دونوں پھر کشتی میں سوار ہو کر روانہ ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ کشتی میکسکو کے ساحل پر پہنچ جاتی ہے جہاں رچرڈ پارکر جنگل میں غائب ہو جاتا ہے اور گاؤں کے لوگ پائی کو ہسپتال پہنچا دیتے ہیں ۔
یہ ایک ایسی کہانی ہے جس میں زندگی اور موت, عقائد , خاندانی روایات اور روحانیت کے بارے میں ان گنت سوالات پیدا ہوتے ہیں . زندگی کی بقا کے لئے انسان تب تک لڑتا ہے جب تک اسے اس کی کوئی وجہ دکھائی دے تبھی وہ زندگی کی کشتی سے چمٹا رھ سکتا ہے. پائی کا طرزِ عمل ہمیں دکھاتا ہے کہ بعض اوقات جب ہم اپنا سب کچھ کھو دیتے ہیں تو ہم خود کو ڈھونڈ لیتے ہیں. پائی جاننے کا خواہش مند ہے وہ دنیاوی اور روحانی دونوں طرح کے علوم سے دلچسپی رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ مذہب سے قریب آ جاتا ہے. وہ ایک انتہائی ذہین, پرہیزگار اور طاقتور بصیرت رکھنے والا لڑکا ہے جو کہ سمندر کے بیچ میں شیر کے ساتھ رہتے ہوئے زندگی سے چمٹا رہتا ہے. یہ ایک حیران کن فلم ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ انسان ہونے کا کیا مطلب ہے ۔
ایک شیر کے ساتھ سمندر میں ایک کشتی پر پھنس جانے کا منظر عجیب لگتا ہے مگر مصنف نے اسے نہایت خوبصورتی سے بیان کیا ہے. ایک چھوٹی سی کشتی, سمندر کا وسیع خالی پن, موسم کی خوبصورتی اور دہشت, اکیلے رہنے کا احساس, مایوسی, زندہ رہنے کا راستہ دریافت کرنے کی خوشی اور ایک 450 پونڈ کے شیر کا خوف زندگی کی بقا کے لیے مہم جوئی کی ایک خوبصورت کہانی ہے ۔
اس کہانی کا ایک روحانی پہلو بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے اور واقعات استعاراتی رنگ بھی رکھتے ہیں . کشتی زندگی کی علامت ہے جس کی بنا پانی پر ہے جو کہ الہام کا استعارہ ہے. رچرڈ پارکر دراصل پائی کے اندر کا وہ جانور ہے جس پر قابو پانے اور اسے حد میں رکھنے کی جستجو نہ صر ف پائی کو زندہ رکھتی ہے بلکہ اس قابل بھی بناتی ہے کہ وہ اس کشتی پر کامیابی سے سوار رہ سکے .