فائیو جنریشنز آف وار
جنگوں کو ان کے لڑنے کے طریقہ اور ہتھیاروں کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف جنریشن میں تقسیم کیاجاتا ہے ۔
امریکی تجزیہ کاروں نے جنگوں کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگوں کی پانچ مدارج میں درجہ بندی کی ہے جنہیں فائیو جنریشن آف وار کہا جاتا ہے ۔ اس درجہ بندی کا بنیادی مقصد جنگوں کے بدلتے ہوئے چہرے کو زیادہ وضاحت کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھنا ہے۔
فرسٹ جنریشن وار
جنگ کی اس جنریشن میں قدیم کلاسیکی لڑائیاں شامل ہیں جو کہ افرادی قوت کے ساتھ لڑی جاتی تھیں اور جن میں لائین اور کالم کی حکمت عملی استعمال کی جاتی تھی ۔ فوجی وردیوں کا استعمال کیا جانے لگا ۔ یہ جنگیں میدان جنگ میں آمنے سامنے لڑی جاتی تھیں ۔ان جنگوں میں گھوڑوں کا استعمال کیا جاتا اور تیروں اور تلواروں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ۔ ان جنگوں کا زمانہ 1648سے 1860 تک محیط ہے ۔
اس دور میں منظم ہو کر لڑنے کے قوانین بھی بنائے گئے ۔ ان جنگوں میں کامیابی کا زیادہ تر انحصار افرادئ قوت پر تھا ۔ سپہ سالار خود بھی میدان جنگ میں موجود ہوتا۔
جنگوں کی درجہ بندی کے اس دور کے آخر میں رائفلوں کا استعمال بھی کیا جانے لگا ۔فرانسیسی جنگجو نپولین کی لڑی جانے والی جنگوں کا شمار بھی انہی جنگوں میں ہوتا ہے ۔ امریکہ کی جنگ آزادی اور میکسیکو کی جنگ آزادی بھی جنگوں کی اسی درجہ بندی کے زمرے میں آتی ہیں ۔
سیکنڈ جنریشن وار
ٹیکنالوجی میں بہتری آنے کی وجہ سے جنگوں میں جدید ہتھیار جیسے رائفلز اور مشین گنز توپ استعمال کی جانے لگیں ۔ اس طرح جنگیں نوعیت کے اعتبار سے نئی درجہ بندی میں داخل یو گئیں ۔
اب میدان جنگ زیادہ وسعت اختیار کر گیا کیونکہ جدید ہتھاروں کے استعمال کے باعث ایک دوسرے پر زیادہ دور سے حملہ کرنا ممکن ہو گیا ۔ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی بڑھ گیا مثلا ریڈیو کمیونیکیشن کے استعمال نے جنگوں کو زیادہ منظم شکل دے دی اور کامیابی کے لیے افرادی قوت پر انحصار کم ہو گیا ۔ بہتر ٹیکنالوجی اور جدید ہتھیاروں پر انحصار بڑھ گیا ۔ یہ جنگیں انیسویں صدی کے آخر میں شروع ہوئیں ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ دنیا کے مختلف حصوں میں آج بھی اسی قسم کی لڑائیاں لڑی جاتی ہیں ۔
فرسٹ ورڈ وار اورامریکن سول وار کواسی طرز کی جنگوں میں شامل کیا جاتا ہے ۔
تھرڈ جنریشن وار
درجہ بندی کے لحاظ سے جنگوں کی اس قسم میں ہتھیاروں کی جدت میں مزید اضافہ ہوا ۔ لڑاکا طیاروں ، جدید ٹینکوں ، اور آبدوزوں کے استعمال سے جنگوں کے جارحانہ پن میں مزید اضافہ ہوا ۔ بکتر بند گاڑیوں کے استعمال دشمن پر اچانک منظم حملے کرنا آسان ہو گیا ۔
تھرڈ جنریشن وار کے حربوں کا استعمال سب سے پہلے جرمنی نے دوسری جنگ عظیم میں شروع کیا اور ان کی مدد سے چند ہفتوں میں یورپ کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا ۔
اب جنگ کا میدان مزید وسیع ہو گیا ۔ فوجی افسروں کو موقع پر مناسب فیصلے کرنے کا اختیار بھی حاصل ہو گیا ۔ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال بھی جنگوں کی اسی درجہ بندی میں شامل ہے ۔
دوسری جنگ عظیم اور پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی جنگیں بھی اسی درجہ بندی میں شامل کی جاتی ہیں ۔
فورتھ جنریشن وار
فورتھ جنریشن وار کی اصطلاح کا استعمال سب سے پہلے امریکی دفاعی تجزیہ کاروں نے 1989 کیا ۔ دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک جنگی ہتھکنڈے اسی جنگی درجہ بندی میں استعمال کئے گئے ۔ جنگوں کی اس قسم میں امن اور جنگ کے درمیان فرق کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ اسی طرح ایک عام شہری اور جنگجو کے درمیان فرق کرنا بھی مشکل ہوتا ہے ۔
فورتھ جنریشن وار میں ایک ملک اپنے دشمن ملک میں اپنی فوج بھیجنے کے بجائے اسی ملک میں موجود باغی عناصر کو مالی اور سیاسی مدد دے کر طاقتور بناتا ہے اور انہیں ان کے اپنے ہی ملک کے خلاف استعمال کرتا ہے پروپگینڈا اور گوریلا جنگ کے ذریعے حالات خراب کیے جاتے ہیں ۔
جنگوں کی اس درجہ بندی میں غیر ریاستی عناصر کے لئے ایک خطرناک پلیٹ فارم مہیا کیا گیا ہے ۔سپر پاور اور بڑی طاقتوں نے اپنی کالونیوں اور زیرسایہ علاقوں پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لئے اسی طریقہء کار کا بڑی کامیابی سے استعمال کیا ہے ۔
ناکام ریاستوں اور خانہ جنگی کے شکار ملکوں میں نسل پرست پارٹیوں یا مذہبی شدت پسند عناصر کو استعمال کر کے حکمران جماعت کے سامنے کھڑا کیا جاتا ہے اور اس طرح ملک میں انتشار کو ہوا دی جاتی ہے ۔
لیبیا کی سول وار ، طالبان کی شورش، شام کی خانہ جنگی اور عراقی شورش جنگوں کی اسی درجہ بندی میں شامل ہیں۔
ففتھ جنریشن وار
یہ وار فیئر کی جدید ترین شکل ہے ۔اسے نظریات اور انفارمیشن کی جنگ بھی کہا جاتا ہے ۔
ففتھ جنریشن وار کی اصطلاح سب سے پہلے2003 میں رابرٹ سٹیل نے استعمال کی تھی ۔ آجکل ناقابل تصور تکنیکی ترقی نے بہت سے گروپوں کو نامعلوم مقامات سے کام کرنے اور انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات کو تیزی سے پھیلانے کے قابل بنا دیا ہے تا کہ مخصوص تصورات کی تعمیر کی جا سکے اور ایک مخصوص ذہنیت کو فروغ دیا جا سکے ۔
اس جنگ میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے ۔ سوشل میڈیا بھی اس میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ آجکل ہر شخص اخبار پڑھنے یا ٹی وی دیکھنے سے زیادہ اپنے سمارٹ فون کے ذریعے معلومات سے آگاہی حاصل کرتا ہے ۔
روزمرہ زندگی میں ہم فلموں، ڈراموں یا ٹاک شوز کے ذریعے تاریخ اور سیاست سے متعلق خاص معلومات حاصل کرتے ہیں ۔ یہ معلومات عوام کو ایک خاص انداز میں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں ۔
یہ جنگ کا وہ خطرناک ترین وقت ہے جس میں جنگ سے متاثر ہونے والوں کو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ وہ حالت جنگ میں ہیں اور نہ ہی وہ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ ہار رہے ہیں یا جیت رہے ہیں ۔ اس جنگ میں غلط معلومات فراہم کر کے لوگوں کی ذہن سازی کی جاتی ہے ۔ جنگ کے مقاصد حاصل کرنے کے لئے سائبر حملے بھی کئے حاصل ہیں۔
جی پریشان کن صورتحال
بہت اہم انفارمیشن بہت ہلکے پھلکے انداز سے لکھتی ہو
Keep it up👍