کیا پودے درد محسوس کرتے ہیں؟ Do plants feel pain?
ہماری زمین پر زندگی مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے ۔ زندگی کی ان مختلف شکلوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی دو واضح طور پر مختلف صورتیں ہیں، جن میں ایک حیوانی زندگی ہے جبکہ دوسری نباتاتی زندگی ہے ۔ زندگی کی یہ دونوں اقسام ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں ۔ حیوانی زندگی میں جس قسم کا تنوع ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ نباتاتی زندگی میں دیکھنے کو نہیں ملتا ، مثلا اگر کسی جانور کو چوٹ پہنچائی جائے تو وہ درد سے چلائے گا غصے کا اظہار کرے گا اور بعض اوقات جوابی وار بھی کرنے کی کوشش کر سکتا ہے ، مگر یہ رویہ ہمیں پودوں میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔
پودوں کا یہ رویہ دیکھ کر یہ سوال ضرور دماغ میں جنم لیتا ہے کہ کیا پودے بھی درد محسوس کرتے ہیں ؟ کیا چوٹ پہنچائے جانے پر وہ کسی قسم کے جذبات محسوس کرتے ہیں ، یامستقبل کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کر سکتے ہیں ؟
ایسے کئی سوالات سائینسدانوں کے دماغ میں بھی اٹھتے رہے ہیں اور اس کا جواب معلوم کرنے کے لئے انہوں نے کئی تجربات بھی کئے ہیں ۔
سائینسدانوں نے ان سوالات کے جوابات جاننے کے لئے جو تجربات کئے ان میں انہوں نے ان کچھ پودوں کو ایک پولی گرام مشین سے جوڑا جس کے نتیجے میں کچھ چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے ۔ یہ پولی گرام مشین بہت ہلکے الیکٹریکل امپلسز کوبھی پکڑ سکتی تھی۔ اس مشین کے ذریعے ماہرین کو اس بات کا علم ہوا کہ پودوں میں بھی جا نوروں کے نروس سسٹم کی طرح الیکٹریکل امپلسز کے ذریعے معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے ۔ پودوں پر مختلف حالات اور مختلف موسموں میں یہ تجربات دہرائے گئے اور معلوم ہوا کہ مختلف حالات میں ان کا ردعمل مختلف ہوتا ہے ۔ چنانچہ سائینسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پیڑ پودوں میں بہت ہلکا ہی سہی مگر نروس سسٹم موجود ہوتا ہے ۔
ایک امریکی سائینسدان کلیو بیکسٹر نے پودوں پر کچھ اس ہی قسم کے تجربات کئے اور یہ نتیجہ نکالا کہ پودے بھی خوشی اور غم کو محسوس کرتے ہیں ، بلکہ اس نے تو یہ بھی کہا کہ پودوں میں چھٹی حس بھی موجود ہوتی ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تجربے میں پودے نے اپنے قریب رہنے والی جھینگا مچھلی کی موت کو محسوس کر لیا تھا اور رسپانس بھی دیا تھا ۔اس کا خیال تھا کہ پودے ہماری سوچ کو بھی جان لیتے ہیں ۔
یہ تجربات میڈیا میں تو رپورٹ ہوئے مگر سائینسدانوں نے انہیں رد کردیا ، ان کا خیال تھا کہ یہ موجودہ علم کی کسوٹی پر پورے نہیں اترتے۔
ایک بائیولوجسٹ آرتھر گیلیسٹن کا کہنا ہے کہ پودوں میں سنٹرل نروس سسٹم تو نہیں ہوتا مگر ان میں والے سیل الیکٹرکل امپلسز کے ذریعے آپس میں رابطہ پیدا کرتے ہیں اور تجربات کے دوران گراف میں ہونے والی تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں۔
ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پودوں میں احساس تو پایا جاتا ہے مگر اس طرح نہیں جیسا کہ جانوروں میں موجود ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پودوں میںجانوروں کی طرح کوئی سنٹرل نروس سسٹم نہیں پایا جاتا کیونکہ ان یں دماغ موجود نہیں ہوتا ۔جانوروں میں جسم کے کسی بھی حصے میں ہونے والی تبدیلی یا تکلیف کی اطلاع فورا دماغ تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں اس سے متعلقہ فیصلے لئے جاتے ہیں ۔لیکن پودوں میں الگ الگ حصوں کی معلومات کو کسی ایک جگہ نہیں بھیجا جاتا بلکہ متعلقہ حصے کے سیل خود ہی حالات کے مطابق فیصلہ لیتے ہیں اور پھر الیکٹریکل سگنلز کے ذریعے دیگر سیلز کو بھی اس کے بارے میں اطلاع دیتے ہیں تاکہ وہ سیل بھی اس کے مطابق فیصلہ لے سکیں ۔
انسانوں اور جانوروں میں سنٹرل نروس سسٹم ایک ایسا اضافی فیچر ہےجو فوری ردعمل دینے میں مدد کرتا ہے اور سیکھنے میں مدد کرتا ہے ۔
جانوروں میں اس سسٹم کے موجود ہونے اور پودوں میں نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پودے انسانوں یا جانوروں کی طرح اپنی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کسی دوسرے وجود کے محتاج نہیں ہوتے وہ خود اپنی خوراک تیار کر سکتے ہیں جانوروں کی طرح انہیں یہاں وہاں بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ جانوروں کی انہی ضروریات کے لئے ان میں حرکت کرنے ، چھونے اوراد گرد کے ماحول کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنا کھانا حاصل کر سکتے ہیں بلکہ خطروں سےبھی نمٹ سکتے ہیں لیکن پودوں کو اس طرح کے رسپانس کی ضرورت نہیں پڑتی ۔
پودوں میں سنٹرل نروس سسٹم نہ ہونے اور انسانوں اور جانوروں میں موجود ہونے کے کچھ فائدے ہونے کے ساتھ کچھ نقصان بھی ہے ۔ یعنی سنٹرلائزڈ سسٹم کے باعث اگر سنٹرل نروس سسٹم پر حملہ ہو تو تمام وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے لیکن پودوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک ٹہنی بھی توڑ کر زمین میں لگا دی جائے تو وہ ایک تناور درخت کا روپ دھار لیتی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ پودوں میں ہر حصہ ایک مکمل یونٹ کی حیثیت رکھتا ہے ۔
سنٹرل نروس سسٹم رکھتے والے جانداروں میں درد ایک ایسا احساس ہے جو انہیں اپنے وجود کے مختلف حصوں کی حالت سے آگاہ رکھتا ہے اور ان کے بچاؤ کے لئے اقدامات کرنے کے لئے تیار کرتا ہے ۔ جن جانداروں میں یہ سینسری پرسیپشن یعنی درد کا احساس ہوتا ہے ان میں اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے طاقت بھی مہیا کی گئی ہوتی ہے اور اگر یہ طاقت عطا نہ کی گئی ہو تو اس سنسری پرسیپشن کے ہونے کی کوئی وجہ نہیں رہتی ۔ مثلا اگر ہمارا ہاتھ کسی گرم سطح کو چھو جائے تو ہمارا سنسری پرسیپشن فورا دماغ کو اطلاع دیتا ہے اور فورا ہمارا ہاتھ وہاں سے ہٹ جاتا ہے ۔
یہ سنسری پرسیپشن ہم میں اس لئے پیدا ہوا ہے کیونکہ ہم ہل جل سکتے ہیں ۔ اگر ہم اپنا ہاتھ ہلا ہی نہ سکتے تو سنسری پرسیپشن کا فائدہ ہی کیا تھا ، کیونکہ قدرت انہی صلاحیتوں کودوام بخشتی ہے جو مخلوق کی بقا کی ضامن ہوں ۔
Very informative