اینگلو افغان جنگیں Anglo-Afghan Wars

اینگلو افغان جنگیں   Anglo-Afghan Wars

برطانیہ نے ہندوستان پر اپنے قبضے کے دوران تین مرتبہ افغانستان پر حملہ کیا ۔ یہ حملے افغانستان پر اپنا کنٹرول  بڑھانے اور روسی اثر و رسوخ کم کرنے کے لئے کئے گئے ۔ یہ جنگیں اینگلو افغان جنگیں کہلاتی ہیں۔

 

پہلی اینگلو افغان جنگ :۔

 

بارکزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے دوست محمد خان نے 1826 میں تخت سنبھالا۔ اس دوران برطانیہ اور روس دونوں ہی افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے کوشاں تھے۔ محمد خان کو مجبور کیا گیا کہ وہ ان دو عظیم طاقتوں کے درمیان تعلقات میں توازن رکھے ۔ انگریزوں نے یہ محسوس کیا کہ محمد خان یا تو ان سے دشمنی رکھتے ہیں یا روسی مداخلت کی مزاحمت کرنے سے قاصر ہیں، چنانچہ وہ افغان حکومت کے معاملات میں براہ راست کردار ادا کرنے کے لئے آگے بڑھے ۔ 

انگریزوں کو خدشہ تھا کہ روس  افغانستان پر قبضہ کر کے اپنے ہندوستانی مفادات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 1837 میں، ایران نے، روسی حمایت سے، شمالی افغانستان کے شہر ہرات کا محاصرہ کر لیا تھا۔ وہاں سے، روس اپنا اثر و رسوخ مشرق کی طرف بڑھا سکتا تھا اور خیبر پاس کے اہم حصے پر کنٹرول حاصل کر سکتا تھا، جو کہ شمال مغربی سرحد کے نام سے جانا جانے والا ایک پہاڑی راستہ ہے، جس کے ذریعےمیدانی علاقوں تک رسائی حاصل کیجا سکتی ہے۔ یہ درہ ایک اہم تجارتی گزرگاہ بھی ہے ۔ اس ممکنہ روسی منصوبے کو روکنے کے لیے EIC نے برصغیر کے بالکل شمال میں ایک فوجی مہم جوئی کا فیصلہ کیا۔

پہلے انہوں نے محمد خان کے ساتھ مذاکرات کئے جو غیر تسلی بخش رہے۔ چنانچہ ہندوستان کے گورنر جنرل، لارڈ آکلینڈ نے افغانستان پر حملے کا حکم دیا۔ ان کا ارادہ تھا کہ افغانستان کا تخت جلاوطن افغان حکمران شاہ شجاع کے سپرد کیا جائے گا۔ وہ دوست محمد کو آزاد خارجہ پالیسی رکھنے کی سزا دینا چاہتے تھے ۔ 

اہم فوجی مدد راجہ رنجیت کی جانب سے دی جانی تھی جس کے ساتھ شاہ شجاع اچھے تعلقات رکھتا تھا۔ اس دوران رنجیت سنگھ اور شاہ شجاع کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کیا گیا جس میں برطانوی حکومت نےیہ یقین دہانی حاصل کی  کہ مشرق میں ان کے اموال کی بہبود کا تقاضا ہے کہ مغربی سرحد پر ان کی ایسی اتحادی حکومت ہو جو ان کے دشمن یعنی روس کے عزائم کے خلاف مزاحمت کرے اور دشمن کی تجاوزات اور جارحیت کے خلاف ایک دیرپا رکاوٹ قائم کی جا سکے ۔

حملہ:۔

نومبر اور دسمبر 1838 کے درمیان دو برطانوی فوج کے کالم ایک ممبئی اور دوسرا بنگال سے افغانستان کی طرف روانہ ہوئے۔ مارچ 1839 میں افغانستان میں داخل ہونے والی فوج کی تعداد 21,000 کے لگ بھگ تھی ۔ اس فوج کی قیادت سر جان کین کر رہے تھے۔

انگریزوں نے شاہ شجاع کے لیے مقامی حمایت کو بڑھاوا دیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ایک طرف وہ روس کے اثر و رسوخ کے خلاف اپنی حمایت یافتہ حکومت قائم کرنے کے قابل یو جائیں گے دوسرا افغانستان کی خوشحالی اور مضبوط حکومت کے قیام میں بھی مدد فراہم کریں گے۔مگر ان دونوں مقاصد کے حصول میں سخت مایوس ہونا پڑا۔

افغانستان کی کوئی مرکزی فوج نہ ہونے کے باعث انہیں کسی متحدہ فوج کا سامنا تو نہ کرنا پڑا تاہم مختلف گزرگاہوں سے وہ ہراساں کرنے والے حملوں اور اور سنائپر فائر کا شکار ہوتے رہے ۔ 

سب سے بڑا مسئلہ لاجسٹک سپورٹ کا تھا جو کہ انگریز فوج کے اڈوں سے بہت فاصلے پر تھی ۔

اس ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی برطانوی فوجیوں کو آدھا راشن دیا جانے لگا  اور کیمپ میں رہنے والوں کو ایک چوتھائی راشن دیا جانے لگا۔ سڑکیں نہ ہونے کے سبب اشیاء کی ترسیل نہایت مشکل تھی ۔ زمین اتنی خشک اور پتھریلی تھی کہ جانوروں کا چارہ بھی ساتھ لاد کر چلنا پڑتا تھا۔ انگریزوں کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ افغانستان میں داخل ہونا تو آسان ہے مگر یہاں قبضہ برقرار رکھنا ایک مشکل امر ہے۔

میدان میں اہم فوجی مخالفت نہ ہونے کے باعث، انگریزوں نے 25 اپریل 1839 کو قندھار میں شاہ شجاع کو نئے امیر کا تاج پہنانے کی تیاری شروع کر دی ۔ جولائی 1839 میں، غزنی کا قلعہ، جو کابل جانے والے راستے کی حفاظت کرتا تھا – کو  انگریزوں نے فتح کر لیا۔ قلعہ کے فتح ہونے سے انگریزوں کو اشد ضرورت کی اشیائے خوردونوش تک رسائی مل گئی۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج اگست میں کابل میں داخل ہوئی، اور ستمبر تک، صورت حال پہلے ہی کافی مستحکم ہو چکی تھی چنانچہ بمبئی کی فوج کو گھر بھیج دیا گیا ۔ غزنی کے سقوط کی خبر سن کر دوست محمد کابل سے بھاگ گیا تھا۔ بعد میں دوست محمد کو گرفتار کر کے ہندوستان جلاوطن کر دیا گئا ۔

افغان قوم غیر ملکیوں کا تسلط برداشت نہیں کرتی ۔ انگریزوں نے اپنے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے مختلف افغان قبائل کے درمیان تفریق پیدا کرنے کے لئے رشوت کا استعمال کیا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر یہ حکمت عملی کامیاب رہی مگر طویل عرصے تک برقرار نہ رہ سکی ۔ انگریز تمام قبائل کے مشترکہ دشمن ٹھہرے ۔ 

فوجی بغاوت اور اس کے نتیجے میں قبضہ، شاہ شجاع کی غیر مقبولیت اور افغانستان میں آکلینڈ کی نافذ کردہ اصلاحات جیسا کہ مقامی قبائل کو دی جانے والی سبسڈی کو کم کرنے کا فیصلہ، اور برطانوی فوجیوں اور افغان خواتین کے درمیان میل جول اور تعلقات پر غصہ، ان سب عوامل نے مل کر ایسے حالات پیدا کیے جس کی وجہ سے 1841 میں بغاوت ہوئی اورپھر یہ حالات افغان قبائل اور انگریزوں کے درمیان ایک خونریز جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ اگرچہ افغان قبائلی رہنما اب بھی بالکل متحد نہیں تھے، لیکن ان کا کم از کم ایک مشترکہ مقصد تھا: انگریزوں کو افغانستان سے نکال باہر کرنا۔

پسپائی:۔

بدامنی تیزی سے پھیل رہی تھی ۔ ایک ہجوم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک اہم سیاسی افسر الیگزینڈر برنس کو قتل کر دیا  ۔غزنی میں بھی برطانوی فوج کو خاصہ نقصان اٹھانا پڑا۔ کچھ وقتی کامیابیاں بھی ہوئیں لیکن حریت پسند افغانوں کے سامنے انگریز فوج کی شکست نوشتہ دیوار بن چکی تھی۔ 

ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج نے کابل شہر کے باہر ڈیرے لگائے ہوئے تھے اور دفاع کے لئے ان کی خراب پوزیشن واضح ہو گئی تھی۔ برطانوی فوج پہاڑوں میں چھپے سنائپرز اور افغان توپوں کی گولہ باری کا نشانہ بننے لگی ۔

انگریز شہر پر اپنا کنٹرول کھو چکے تھے۔قلعے میں رکھا گیا سامان رسد افغانیوں  کے قبضے میں جا چکا تھا۔ اسلحے اور خوراک کی کمی نے برطانوی فوج کو دسمبر میں کابل سے انخلاء کے لئے قبائلی سرداروں سے بات چیت پر مجبور کر دیا۔ اس کشمکش کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایلچی سر ولیم میکناٹن کو دوست محمد کے بیٹے اکبر خان نے قتل کر دیا۔ کابل میں شدید برفباری شروع ہو چکی تھی جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی۔ انگریز فوج کو ہندوستان تک بحفاظت پہنچنے کے لئے افغانیوں سے مذاکرات کرنا تھے۔

یکم جنوری  1842 کو، افغان رہنماؤں نے افغان سرزمین سے برطانوی فوج اور اس کے ساتھیوں کے پرامن انخلاء کی اجازت دینے پر اتفاق کیا۔ برطانوی فوج کی کمان میجر جنرل ولیم ایلفنسٹن (1782-1842) کر رہے تھے۔

 برطانوی فوج نےکابل چھوڑ دیا اور جلال آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ انخلا پرامن رہے، چار برطانوی افسران کو یرغمال بنا لیا گیا۔  افغان لیڈروں نے جارحانہ انداز اختیار کیا اور ملک سے نکلتے ہوئے برطانوی فوج کے عقبی حصے پر مسلسل حملے کیے۔ چھاپہ ماروں نے اونٹ اور سامان رسد بھی ان سے چھین لیا ۔ برطانوی افسران کی 12 بیویوں اور 22 بچوں کو بھی یرغمال بنا لیا ۔ اب انگریزوں کے پاس نہ تو خیمے تھے اور نہ ہی  سامان، جب وہ دریاؤں اور ناہموار سرد  علاقوں کو عبور کررہے تھے تو ہائپوتھرمیا نے کئی جانیں لے لیں۔ 10 جنوری تک، کابل چھوڑنے والے اصل 16,500 میں سے صرف 4,000 کے قریب زندہ بچ سکے۔

11 جنوری کو جگدلک پاس سے گزرتے ہوئے برطانوی کالم پر حملہ ہوا۔ 12 جنوری کو ایلفنسٹن کو اس وقت یرغمال بنا لیا گیا جب وہ اکبر خان کے کے پاس جنگ بندی کی درخواست کرنے کے لیے گیا۔ جنرل بعد میں پیچش سے مر گیا. لڑنے کے لیے صرف 80 آدمی رہ گئے تھے، 13 جنوری کو  گندمک ہل پر ایک آخری معرکہ ہوا جس میں صرف ایک یورپی ، ڈاکٹر برائیڈن بچ سکا۔جسے لنگڑے ٹٹو پر بٹھا کر واپسی کے لئے روانہ کر دیا گیا ۔ پوری فوج کی پسپائی اور پھر تباہی برطانوی فوج کی تاریخ کی بدترین شکست تھی ۔

 دریں اثنا، شاہ شجاع کو اپریل 1842 میں قتل کر دیا گیا اور اس طرح افغانستان پر انگریزوں کا قبضہ مکمل طور پر ختم ہو گیا۔

( بحوالہ،ورلڈ ہسٹری انسائیکلوپیڈیا)

 

  

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )