خوش اور مطمئن زندگی وہی گزار سکتا ہے جو رنج و راحت دونوں سےآگاہ ہو One can live a happy and contented life if he is aware of both pain and relief

خوش اور مطمئن زندگی وہی گزار سکتا ہے جو رنج و راحت دونوں سےآگاہ ہو One can live a happy and contented life if he is aware of both pain and relief

نصیحت آموز حکایات


شیخ سعدی اپنی پرحکمت گفتگو اور حکایات کے باعث شہرت رکھتے ہیں ۔ ان کی ایک حکایت ۔حکایات سعدی میں درج ہے ۔

ایک بادشاہ کشتی میں بیٹھا دریا کی سیر کر رہا تھا۔ کچھ درباری اور غلام بھی اس کے ہمراہ تھے۔ ان میں ایک غلام ایسا بھی تھا جو پہلے کبھی کشتی میں نہ بیٹھا تھا ۔ وہ بہت خوفزدہ تھا اور ڈوب جانے کے خوف سے رو رہا تھا۔ بادشاہ اس کے اس طرح رونے سے  سخت بدمزہ ہو رھا تھا اور چاہتا تھا کہ وہ کسی طرح خاموش ہو جائے تاکہ وہ دریا کی سیر سے لطف اٹھا سکے ۔ اس نے غلام کو خاموش کروانے کے لئے اسے کئی بار ڈانٹا مگر اس پر اس ڈانٹ کا کچھ اثر نہ ہوا ۔

کشتی میں ایک جہاندیدہ اور دانا شخص بھی سوار تھا۔ اس نے غلام کی یہ حالت دیکھی تو بادشاہ سے کہا کہ اگر حضور اجازت دیں تو یہ خادم اس خوفزدہ غلام کا ڈر دور کر دے؟ بادشاہ نے کہا ، اجازت ہے ۔ اس دانشور نےدیگرغلاموں کو حکم دیا کہ اس شخص کو اٹھا کر دریا میں پھینک دو۔

غلاموں نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے  اس خوفزدہ غلام کو اٹھا کر دریا میں پھینک دیا۔ غلام نے اور زور سے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور بری طرح غوطے کھانے لگا ۔ جب وہ تین چار غوطے کھا چکا تو اس دانشور نے غلاموں سے کہا کہ اب اسے دریا سے نکال کر کشتی میں سوار کر لوَ چنانچہ غلاموں نےاسے بازوں سے پکڑ کر اور گھسیٹتے ہوئے دوبارہ  کشتی میں سوار کروا لیا ۔ وہ غلام جو کجھ دیر پہلے ڈوب جانے کے خوف میں مبتلا ہو کر چلا رھا تھا اب خاموشی سے کشتی کے ایک کونے میں بیٹھ گیا ۔

 بادشاہ نے حیران ہو کر سوال کیا کہ یہ شخص جو پہلے ہی سخت خوفزدہ تھا تم نے اسے اٹھا کر دریا میں کیوں پھنکوایا، آخر اس میں کہا حکمت ہے مزید یہ کہ اب یہ خاموشی سے کیوں بیٹھا ہے ؟ 

دانشور نے جواب دیا حضور والا!  بات یہ ہےکہ اس نے کبھی دریا میں غوطے کھانے کی تکلیف نہیں اٹھائی ۔ اس کے دل میں اس آرام کی کوئی قدر نہیں تھی جو اسے کشتی کے اندر حاصل تھا۔ اب اس پر یہ حقیقت واضح ہو گئی ہے کہ اس کشتی نے اسے کس طوفان سے پناہ دے رکھی ہے۔ اس پر حقیقت واضح ہو گئی ہے اس لئے اب یہ خاموش ہو گیا ہے ۔

جس نے دیکھی نہ ہو کو ئی تکلیف قدر آرام کی وہ کیا جانے

نعمتوں سے بھرا ہو جس کا پیٹ جو کی روٹی کو کب غذا مانے

حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں انسانی نفسیات کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے کہ جس شخص نے زندگی میں رنج و مصائب کا سامنا نہ کیا ہو اسے آرام کی کچھ قدر نہیں ہوتی ۔ ایسا شخص کم حوصلہ اور قوت برداشت سے محروم ہوتا ہے اور آرام کی قدر و قیمت نہیں جانتا ۔خوش اور مطمئن زندگی وہی شخص گزار سکتا ہے جو رنج و راحت دونوں سے آگاہ ہو ۔

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )