آکلینڈ کے بارے میں (حصہ اول) About Auckland (Part I)

آکلینڈ کے بارے میں (حصہ اول) About Auckland (Part I)

 اگست 2023 وہ دن تھا جب مجھے نیوزی لینڈ کا سفر کرنے کے موقع ملا ۔ یہاں رھ کر اس علاقے کے منفرد اور پرسکون ماحول ، ثقافت اور قدرتی حسن نے مجھے مجبور کیا کہ اس خطے کے بارے میں کچھ لکھا جائے ۔

ماوری لوگ آکلینڈ کو تماکی مکاؤر کہتے ہیں ، جس کے معنی ایک ایسی لڑکی کے ہیں جس کے سو چاہنے والے ہوں ۔

 اس نے یہ نام اس لیے حاصل کیا کیونکہ یہ ایک ایسا علاقہ تھا جہاں قبضہ کرنے اور رہنے کی چاہت ہر کسی میں تھی ۔ اس کے خوبصورت جنگلات ، سبزے کے قالین سے ڈھکی پہاڑیاں، خوبصورت ساحل ؟،معتدل آب و ہوا، برساتی جنگلوں اور آبشاروں پر مشتمل یہ سرزمین صدیوں تک بحرالکاہل کے وسیع سمندر میں پھیلے جزیروں کے باسیوں کو اپنی جانب بلاتی رہی ہے ۔ اس حسین سرزمین پر قبضے کے لئے جزیروں کے باسی صدیوں آپس میں جنگیں کرتے رہے ہیں اور آج یہ سرزمین ان آئی لینڈرز کی جنت ہے ۔ مقامی روایات پر ماوری ثقافت کے گہرے نقوش ہیں ۔ ماوری طرز تعمیر کی جھلکیاں جا بجا دکھائی دیتی ہیں ۔

اس خوبصورت علاقے کے لوگ صدیوں تک اپنی زرخیز زمین اور قدرتی بندرگاہوں کے لئے لڑتے رہے ہیں ۔ اس کے مشرق میں بحرالکاہل اور مغرب میں بحیرہ تسمان واقع ہے ۔ آج یہ نیوزی لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے، ایک متحرک اور متنوع علاقہ جہاں فطرتی حسن اور شہری رنگا رنگی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ جس میں 48 آتش فشاں پہاڑ 50 سے زیادہ جزیرے اور 29,000 کلومیٹر لمبی ساحلی پٹی ہے ۔ آپ کہیں بھی ہوں ساحل سمندر آپ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہو گا۔

 آکلینڈ کا مرکزی حصہ بحیرہ تسمان پر مانوکاؤ ہاربر اور بحر الکاہل پر وائٹماٹا بندرگاہ کے درمیان ایک تنگ زمینی پٹی پر واقع ہے۔ یہ دنیا کے ان چند شہروں میں سے ایک ہے جہاں دو مختلف سمندروں پر بندرگاہیں قائم کی گئی ہیں۔ یہ”کشتیوں کے شہر” کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، آکلینڈ میں دنیا کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں فی کس زیادہ کشتیاں موجودہیں ۔

اگر آپ کو دنیا کے مختلف خطوں کے سفر کا موقع مل چکا ہے تو آپ محسوس کریں گے کہ نسل انسانی کی جتنی مختلف اقسام آکلینڈ میں دکھائی دیتی ہیں شائد ہی زمین کے کسی اور خطے میں پائی جاتی ہوں ۔ زیادہ تر باشندے یورپی نسل کے ہیں، خاص طور پر برطانوی اور آئرش، لیکن ایشیائی، بحرالکاہل کے مختلف جزائر کے رہنے والے جنہیں آئی لینڈرکہا جاتا ہے اور ماوری لوگوں کی بھی کثیر آبادی یہاں رہتی ہے ۔آکلینڈ زمین پر کسی بھی شہر کی سب سے بڑی پولینیشین آبادی کا گھر ہے۔

پولینیشیا، اوقیانوسیہ کا ایک ذیلی خطہ ہے جو مرکزی اور جنوبی بحر الکاہل کے 1،000 سے زیادہ جزائر پرمشتمل ہے۔

جزائر کے رہنے والے یہ لوگ زیادہ تر ساموا، ٹونگا، کک جزائر سے ہجرت کر کے یہاں پہنچے ہیں اوراپنے بھاری بھرکم ڈیل ڈول کے باعث پہچانے جاتے ہیں اور عام لوگوں سے مختلف دکھائی دیتے ہیں ۔

آکلینڈ شہر سب سے پہلے 1350 میں آباد ہوا۔ نگاٹی واٹوا قبیلے کے لوگوں نے اسے آباد کیا وہ مل جل کر کام کرتے، فصلوں کی دیکھ بھال کرتے، دیہاتی علاقوں اور ساحلی پٹی سے کھانا اکٹھا کرتے ۔ اس زمین نے ان لوگوں کو شناخت دی ، روحانی اور معاشی وسائل مہیا کئے ۔6 فروری 1840 میں، برطانیہ اور نیوزی لینڈ کے شمالی جزیرے کے متعدد ماوری قبائل، بشمول واٹوا قبیلے، نے ایک تاریخی معاہدے  پردستخط کئے یہ معاہدہ ، ویٹانگی کا معاہدہ کہلاتے ہے جس کا مقصد ماوری حقوق کا تحفظ تھا اور یہ نیوزی لینڈ کے برطانوی الحاق کی بنیاد تھا ۔6 فروری 1840 کوہونے والا ویٹانگی معاہدہ برطانوی ولی عہد اور ماوری سرداروں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔ اس نے نیوزی لینڈ میں برطانوی امیگریشن اور قومی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی۔ اس نے ماوری قبائل کے حقوق اور مراعات کی بھی ضمانت دی۔ نیوزی لینڈ کا دو ثقافتی معاشرہ اس معاہدے پر مبنی ہے، جو ماوری سیاسی نظام کو بھی اس کی قانونی حیثیت دیتا ہے۔

بیرن آکلینڈ، آئرلینڈ اور برطانیہ میں ممتاز اور اہم شخصیات کو دیا جانے والا ایک ٹائٹل تھا جس کا آغاز 1789 میں ہوا جب ایک ممتاز سیاستدان اور مالیاتی ماہر ولیم ایڈن کو آئرلینڈ میں یہ ٹائٹل دیا گیا ۔

نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ کا نام آکلینڈ کے پہلے ارل ، اور ولیم ایڈن کےبیٹے جارج ایڈن کے نام پر رکھا گیا تھا، جو شہر کے بانی ولیم ہوبسن کے سرپرست تھے ۔ مضافاتی علاقہ ، ماؤنٹ ایڈن اور کھیلوں کے میدان ایڈن پارک سمیت آکلینڈ کے متعدد اہم جگہوں کے نام براہ راست یا بالواسطہ طور پرایڈن فیملی کے نام پر رکھے گئے ہیں ۔

آکلینڈ میں لگ بھگ 50 آتش فشاں پہاڑ ہیں جو کونز کی شکل میں جا بجا کھڑے دکھائی دیتے ہیں تو کہیں یہ جزیروں کی شکل میں سمندر میں کھڑےنظر آتے ہیں ۔ ان میں تقریبا سبھی معدوم سمجھے جاتے ہیں ۔ سب سے آخری آتش فشاں تقریبا 700سال پہلے پھٹا تھا جس کے باعث رنگی ٹوٹو کا جزیرہ نمودار ہوا تھا ۔

رنگی ٹوٹو ایک بڑی سی پراسرار قبر کی مانند دکھائی دیتا ہے ۔ آکلینڈ میں آپ کہیں بھی سفر کریں دور سمندر میں رنگی ٹوٹو خاموشی کی چادر اوڑھے آپ کو ہر جگہ سے دکھائی دے گا ۔

آکلینڈ معتدل آب و ہوا کا خطہ ہے ۔ یہاں کا دلکش موسم کرہ ارض پر بہت کم علاقوں کےحصے میں آیا ہے ۔ گرمیوں میں ہلکی گرمی اور سردیوں میں درمیانے درجے کی ٹھنڈ ہوتی ہے ۔

 موسم گرما کا اوسط درجہ حرارت 20 سے 25 ڈگری سیلسیس (68 سے 77 ڈگری فارن ہائیٹ) کے درمیان ہوتا ہے، جبکہ سردیوں کا درجہ حرارت عام طور پر 10 سے 15 ڈگری سیلسیس (50 سے 59 ڈگری فارن ہائیٹ) تک ہوتا ہے۔ سردیوں میں یہ عام طور پر 10 ڈگری سیلسیس سے نیچے نہیں جاتا، گرمیوں میں یہ 30 کی دہائی میں چلا جاتا ہے لیکن عام طور پر نہیں۔

بارش بھی تمام سال تقریبا ایک ہی جیسی ہوتی ہے تاہم،جون سے اگست کے درمیان دوسرے مہینوں کے مقابلے میں قدرے زیادہ بارش ہوتی ہے ۔ آکلینڈ میں تقریباً 1,200 سے 1,400 ملی میٹر (47 سے 55 انچ) اوسط سالانہ بارش ہوتی ہے۔

شہر کی سمندر سے قربت کے باعث نمی کی سطح بلند رہتی ہے ۔ آکلینڈ کا موسم نہایت تیزی سے تبدیل ہو جاتا ہے ،بعض اوقات تو ایک ہی دن میں چار موسموں کا تجربہ کیا جا سکتا ہے ۔ آسمان اتنی تیزی سے رنگ بدلتا یے کہ چند منٹ پہلے تیز بارش ہو رہی ہے تو اگلے ہی لمحے دھوپ نکل آتی ہے اور محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ابھی چند لمحے پہلے طوفانی بارش ہو رہی تھی ۔

 اس شہر کو ملک کے اقتصادی مرکز کی حیثیت حاصل ہے۔تکنیکی اور تجارتی افرادی قوت کا ایک بڑا حصہ جنوبی آکلینڈ کے صنعتی علاقوں میں مقیم ہے۔ سب سے بڑے تجارتی اور صنعتی مراکز آکلینڈ شہر کے جنوب مشرق کے ساتھ ساتھ مانوکاؤ کے مغربی حصوں میں ہیں، زیادہ تر ان علاقوں میں ہیں جن کا رخ مانوکاؤ ہاربر اور دریائے تماکی کے ساحل کی طرف ہے

آکلینڈ کی بندرگاہوں کے ذریعے لوہا ، سٹیل ، اون ، دودھ کی مصنوعات، گوشت اور کھالیں برآمدکی جاتی ہیں۔ درآمدات میں پیٹرولیم ، آئرن اور اسٹیل کی مصنوعات، چینی ، گندم اور فاسفیٹ شامل ہیں ۔ آکلینڈ کا علاقہ انجینئرنگ، اشاعت اور دھاتی اشیا کی تجارت کابھی اہم مرکز ہے۔ پینٹ، شیشہ، پلاسٹک، کیمیکل، سیمنٹ، اور مختلف قسم کے اشیائے ضروریہ کی تیاری؛ گاڑیوں کی اسمبلنگ ، کشتیوں کی تعمیر؛ اور فوڈ پروسیسنگ، اور شوگر ریفائننگ کا بھی اہم مرکز ہے ۔1969 میں، گلین بروک کے علاقے میں لوہے اور اسٹیل کی ایک بڑی مل لگائی گئی، اور 1977 میں ماوئی فیلڈ سے آکلینڈ تک قدرتی گیس کی پائپ لائن کی تعمیر مکمل ہوئی۔

اس شہر میں تقریبا 60 آرٹ گیلریاں ہیں جن میں سب سے بڑی ، آکلینڈ آرٹ گیلری اور نیو گیلری ہے جس میں 100,000سے زیادہ فن پارے موجود ہیں ان میں نیوزی لینڈ اور یورپی آرٹ کے نمونے شامل ہیں ۔ آکلینڈ میں بہت سے تھیٹرز اور تفریحی مراکز ہیں جہاںسال بھر لائیو تھیٹر، کامیڈی، موسیقی اور ڈرامہ پرفارمنس چلتی رہتی ہے ۔

  آکلینڈ وار میموریل میوزیم میں پولینیشین فن پاروں اور ماوری ثقافت اور اس کے لوگوں کی تاریخ سے متعلق اشیاء کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ دیکھا جا سکتا ہے۔

نیوزی لینڈ کی سمندری تاریخ کی نمائندگی کرنے والے سمندری اور تاریخی نمونے ، ابتدائی پولینیشین آمد سے لے کر جدید دور کے سمندری سفر تک، آکلینڈ کے واٹر فرنٹ پر واقع نیشنل میری ٹائم میوزیم میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں

کھیل نیوزی لینڈ کے تمام لوگوں کی زندگیوں کا اہم حصہ ہے اور خاص طور پر آکلینڈرز کے لیے بہت اہم ہے۔ یاٹنگ ریس، رگبی اور کرکٹ یہاں کے پسندیدہ کھیل ہیں ۔

(جاری ہے)

:یہ بھی پڑھیئے

آکلینڈ کے بارے میں (حصہ دوم) About Auckland (Part II)

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )