جمہوریت کیا ہے؟ What is democracy?

جمہوریت کیا ہے؟  What is democracy?

جمہوریت کا تصور سب سے پہلے یونانی دانشوروں نے پیش کیا مگر اس کی پہلی جامع تعریف ابراہیم لنکن نے پیش کی اور جس سے آج ہم سب واقف ہیں یعنی،

Government of the people, by the people, for the people.

یعنی جمہوریت نام ہے ایسی حکومت کا جو عوام کے ذریعے قائم کی جائے ، وہ عوام کی نمائندگی کرتی ہو ۔

یہ ایک گھسا پٹا جملہ ہے جو جمہوریت کی تعریف کے ضمن میں اکثر سکول کے بچوں کو یاد کروایا جاتا ہے لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ شاید ہی آج تک یہ دنیا کی کسی جمہوری حکومت پر صادق آیا ہو ۔

کسی حکومت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ عوام کے اکثریتی طبقے کی نشاندہی کرتی ہے ، ایک مشکل امر ہے ۔ اور اگر وہ اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے تو اقلیت کا کیا ہو گا؟ کیا اقلیت عوام کہلائے جانے کی حقدار نہیں ؟

علامہ اقبال نے اس منظر نامے کو یوں پیش کیا ہے ،

اس راز کو اک مرد فرنگی نے کیا فاش

ہر چند کے دانا اسے کھولا نہیں کرتے

        جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

 

اعدادوشمار کا بغور جائزہ لیا جائے تو بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ حکمران پارٹی بعض حلقوں میں معمولی اکثریت حاصل کر کے حکومت میں آ جائے ۔ اگر ووٹوں کا تناسب کم رہے تو یہ بات اور بھی مشکوک ہو جاتی ہے ۔ اگر ایک پارٹی عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل کر کے حکومت میں آ بھی جائے تو حکومت کے عرصہ کے دوران کئی ایسے معاملات ہو سکتے ہیں جن کے باعث عوام میں اس کی مقبولیت قائم نہ رھ سکے ۔

مزید یہ کہ اگر عوام کی بھلائی کے فیصلے ابدی اصولوں کو مد نظر رکھ کر کرنے کے بجائے صرف اکثریتی پارٹی کی صوابدید پر ہی چھوڑ دیئے جائیں تو ہر مرتبہ پارٹی کی حکومت بدلنے پرترجیحات بھی تبدیل ہو جاتی ہیں جس سے پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے اور ملکی ترقی متاثر ہوتی ہے ۔

یہ بھی پڑھیئے:۔

کیا بناتا ریپبلک کا تعلق واقعی کیلے سے ہے؟ What does Banana Republic really have to do with bananas?

چند ایک مغربی ملکوں کو چھوڑ کر زیادہ تر ممالک میں جمہوریت کے نام پر ایسی آمرانہ حکوتیں عوام پر مسلط رہتی ہیں جو جہالت، غربت یا دھونس دھاندلی سے عوام کو کسی مخصوص پارٹی کو منتخب کر نے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔ ان ہتھکنڈوں نے جمہوریت کی اصل روح کو اس حد تک کمزور کر دیا ہے کہ اب درحقیقت جمہوریت کا صرف نام ہی باقی رہ گیا ہے اور روح مفقود ہو چکی ہے ۔

اسلام نے جمہوریت کا جو تصور پیش کیا ہے اس کے دو بنیادی اصول ہیں،

انتخابات کا مل شفاف اور دیانتداری پر مبنی ہونا چاہئے ۔ پوری ایمانداری اور دل میں خوف خدا رکھتے ہوئے ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہئے جسے ہم ایمانداری سے اس منصب کا اہل دیکھتے ہوں ۔ یہ اصول دراصل اس جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ انتخاب کا حق دراصل ایک مقدس فریضہ بھی ہے جو ہر شہری کو پوری ایمانداری سے سرانجام دینا چاہئے سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری اس کی راہ میں حائل ہو جائے ۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ ہر صورت میں انصاف پر قائم رھا جائے ۔ کوئی مجبوری یا مصلحت اس عمل کی راہ میں اس طرح نہیں آنی چاہئے کہ جس سے انتخاب کا طرز عمل متاثر ہو ۔ حکومت قائم کرنے والی پارٹی پر بھی یہ لازم ہو کہ وہ اپنے اندرونی انتخابات میں دیانتداری برتے ،اپنے فیصلے پوری دیانتداری سے کرے، کسی قسم کی مصلحت اس کے سیاسی فیصلوں پر اثرانداز نہ ہو ۔

اگر ان تمام تقاضوں کو پورا کیا جائے تب ہی ایسی جمہوری حکومت قائم ہو سکے گی جو ابراہیم لنکن کے قول کے مطابق عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کے لئے قائم کی جائے گی۔

 

 

 

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )