آنکھ میں ٹھہرا آنسو

آنکھ میں ٹھہرا آنسو

گہری نیند میں بھی اس کے دماغ کا ایک حصہ ہمیشہ چوکس رہتا  ۔

کھڑکی کے باہر سے آنے والی ہلکی سی روشنی یا ذرا سی آہٹ اسےبیدار کرنےکے لیے کافی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نےبلڈنگ کے ٹاپ فلور پر اپارٹمنٹ خرید رکھا تھا جہاں ٹریفک کا شور یا سٹریٹ لاٸٹ اسے پریشان نہیں کرتی تھی ۔ اگرچہ ان اعلی درجہ کے اپارٹمنٹس کی قیمت زمین کے قریب واقع اپارٹمنٹس سے دگنی تھی لیکن خریداری کرتے ہوۓ اسے ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوٸی کیونکہ اس کی زندگی کا سکون اس کی پہلی ترجیح تھا ۔

اچانک ہواٸی جہاز کی اونچاٸی میں تیزی سے کمی آٸی اور وہ ایک جھٹکے سےنیند سے بیدار ہو گٸی۔ اس کے کانوں پر ابھی بھی شور سے بچاٶ کے لیے ہیڈ سیٹ لگا ہوا تھا جسے وہ ہمیشہ سفر کے دوران ساتھ رکھتی تھی ۔

اگرچہ اٸرلاٸن والے اپنے پریمیم اداٸیگی کرنے والے مسافروں کے لیے اچھے معیار کے آڈیو سیٹ مہیا کرتے تھے لیکن وہ مارکیٹ میں موجود بہترین کوالٹی کے ہیڈ سیٹ خریدتی تھی جو کہ اکثر کافی مہنگے بھی ہوتے تھے ۔

ایسا قیمتی سامان خریدنا بہت سے لوگوں کے لیے فضول خرچی ہو سکتا ہے لیکن وہ خود کو ہمیشہ سب سے اہم سمجھتی تھی ۔ اس کی زندگی کا سکون اس کی پہلی ترجیح تھا ، اس لیے ایسی اشیا پر رقم صرف کرنے میں اسے کوٸی عار نہ تھا جو اسے سکون بخش سکیں ۔ لیکن اس وقت ، اس کا دل ڈوب گیا ۔

وہ قیمتی سامان جو پیسوں سے خریدا جا سکتا تھا وقت کے اس لمہے میں کوٸی معنی نہیں رکھتا تھا ۔

اس نے خوف سے پھٹی آنکھوں سے گردو نواح کا جاٸزہ لیا ۔کیبن لاٸٹس ٹمٹما رہی تھیں ۔ داٸیں جانب بیٹھی بوڑھی خاتون منہ کھولے اور آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی ۔ آنسو اس کے جھریوں زدہ چہرے پرپھسل رہے تھے ۔

اس نے تیزی سے ہیڈ سیٹ کانوں سے ہٹا یا ۔تب اسے احساس ہوا کہ کیبن میں خوفناک شور شرابہ برپا تھا ۔لوگ چلا رہے تھے ، بلند آواز میں دعاٸیں کر رہےتھے ۔ فلاٸیٹ اٹینڈنٹ لوگوں کو پرسکون رہنے کی ہدایات دے رہا تھا جس پر کوٸی دھیان نہیں دے رہا تھا  ۔

جلد ہی اس نےمحسوس کیا کہ اس کے کان آہستہ آہستہ بہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ دراصل جہاز کے اچانک کم بلندی پر آنے کے سبب سے جو ہوا کا کم دباٶ پیدا ہوا اس سےکانوں کے پردے پھٹ گیے تھے ۔ اس نے گرم ماٸع کانوں سےجبڑوں کی جانب بہتا ہوامحسوس کیا ۔ مگر خوف کے احساس نے درد کے احساس کو دبا دیا تھا اور وہ اس وقت کوٸی بھی تکلیف محسوس کرنے سے قاصر تھی ۔

کھڑکی سے باہر اسےبھڑکتی آگ کا شعلہ دکھاٸی دیا  اور پھر کیبن کی تمام لاٸٹس بند ہو گیٸں ۔ اس کے باوجود کیبن پہلے سے زیادہ روشن تھا ۔

آگ کی جھلسا دینے والی شدت میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا ۔کیبن دھویں سے بھرا ہوا تھا ۔

وہ جانتی تھی کہ اب مزید کوٸی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی ۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوٸی راستہ نہیں ۔ مزید کوٸی کل نہیں ۔

   آہ ۔  ۔ ۔ ۔  کیا بس یہی اختتام ہے ؟

اس لمحے سوچیں اس پر غالب آ گیٸں ، خوف کی جگہ مایوسی نے لے لی۔

اس کے ساتھ ہی اس نے ان تمام دنیاوی چیزوں اور لذتوں کےبارے میں میں سوچا جن سے وہ اب کوٸی فاٸدہ نہیں اٹھا سکتی تھی ۔ جمعہ کے روز وہ اپنی دفتری کولیگز کے ساتھ جس پارٹی میں جانے  والی تھی اب وہ ایسی کسی پارٹی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتی ۔

اس کا سات سال کا پیارابھتیجا ، ایسے سفروں سے واپسی پر وہ اس کے لیے کوٸی نہ کوٸی تحفہ  لے آتی اور وہ پیار سے اس کی گال پربوسہ دیتا ۔ مگر اب وہ اس پیار کی گرمی کو کبھی محسوس نہ کرپاۓ گی ۔

 

ماضی کی خوشگوار یادوں نے کچھ دیر کے لیے احساسات کی تلخی کو کم کر دیا ۔ اسے اپنے والد کی وفات کا دن یاد آیا ۔ آنسو خاموشی سے اس کے گالوں پربہنے لگے ۔

اچانک اسے اپنی ماں کا خیال آیا ، جو ہمیشہ اس کے لیے اس کے پسندیدہ کھانےبناتی ۔

اس کی ماں ، اس کی بہن ، اس کے شوہر اور اس کے سات سالہ بیٹے کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ ایک روایتی ذہن رکھنے والی خاتون تھیں ۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ جلد شادی کر لے تا کہ ایک مرد کا مضبوط سہارا اسے مل جاۓ جو زندگی کی مشکلات میں اس کا ساتھ دے ۔ مگر وہ آزاد زندگی گزارنا چاہتی تھی ۔

اپنی ماں کی نصیحتوں سے تنگ آ کر اس نے ان کے ساتھ وقت گزارنا کم کر دیا ۔ جب بھی جاتی اپنےبھتیجے کو ساتھ لے کر باہر گھومنے چلی جاتی ۔

اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے ۔

وہ ہر گز ایسی شخصیت نہیں تھی جو ماضی کی غلطیوں پر پچھتاتی رہے ۔ لیکن اب اس نے سوچا ، کاش ! اس نے اپنی ماں کے ساتھ زیادہ وقت گزارا ہوتا ۔ اگرچہ اسے اپنی ماں کے خیالات سے اختلاف تھا لیکن اس کا دل رکھنے کی خاطر اس کا بنایا کیک اور مچھلی کھانی چاہیے تھی جو وہ اتنے پیار سے اس کےلیےبناتی تھی ۔ اس کے بجاۓ وہ زیادہ وقت یوگا کرنے اور کیلوریز برن کرنے میں صرف کرتی رہی ۔

اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے ، مگر یہ آنے والی موت کے خیال سے نہیں بلکہ اس کی ماں کا تصور تھا جس نے اسے رولا دیا تھا ۔

اس نے داٸیں جانب پلٹ کر ساتھ بیٹھی بوڑھی عورت کے ہاتھوں کو تھام لیا ۔ عورت نے اس کے لمس کومحسوس کر کے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا ۔ بزرگ خاتون کےچہرے پرمایوسی چھاٸی ہوٸی تھی ۔ شاٸد وہ اپنی موت کو قبول کرچکی تھی ۔

اس کی ماں اور اس بزرگ خاتون کے چہرے زیادہ مختلف نہیں تھے ۔ شاٸد عمر اور جسمانی ساٸز کی وجہ سے اسے ایسامحسوس ہوا ۔

 آہ! اس عورت کے چاہنے والےبھی اس کا انتظار کر رہے ہوں گے ۔

اچانک ایک زور دار جھٹکا لگا اور اس کے ارد گرد ہلچل مچ گٸی ۔اگر وہ ہواٸی جہازمیں نہ ہوتی تو یقیناً سمجھتی کہ کوٸی بڑا زلزلہ آیا ہے اور دنیا کا خاتمہ ہونے ولا ہے ۔

درحقیقت یہ دنیا کا خاتمہ نہیں بلکہ صرف اس کی دنیا کا خاتمہ تھا ۔

زمین یونہی گھومتی رہے گی ، وقت بھی رواں رہے گا ۔ لوگ اپنا اپنا سفرجاری رکھیں گے ، وقت گزرنے کے ساتھ وہ اپنے پیاروں کے ذہن میں دھندلی یادوں کی صورت میں باقی رہ جاۓ گی ، اس کے پیارے اس کی داٸمی جداٸی کو قبول کر لیں گے ۔

آخری خیال جو اس کے ذہن میں آیا وہ یہ تھا کہ کتنا اچھا ہوا کہ وہ کوشش کے باوجود بزنس کلاس کیبن میں کھڑکی کے ساتھ والی خالی سیٹ حاصل نہیں کر پاٸی ۔ اکثر سفر کے دوران وہ ایسی دو سیٹیں لے کر تنہا بیٹھنا پسند کرتی تھی ۔

آخر ایسے لمہے میں اسےجس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ کسی کا ساتھ اور اس کے وجود کی گرمی تھی ، وہ بھی ایسا وجود جو بلکل اس کی ماں کے مشابہہ تھا ۔ اسے لگا کہ اس نے اپنی ماں کے گھٹنوں کو تھام رکھا ہے۔

دونوں عورتوں نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور خاموشی سے اپنی اپنی زندگی کے راستے کے اختتام کی جانب بڑھ رہی تھیں۔۔۔۔۔

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (3)
  • comment-avatar
    Raamy 3 years

    Good one !

  • comment-avatar
    Erum 3 years

    Hmmmm unpredictable but definite  end of life journey 

  • comment-avatar
    Nabeeha 3 years

    Good 👍🏻 

  • Disqus (0 )