ہم حقاٸق کو قبول یا مسترد کیوں کرتے ہیں۔ Why do we accept or reject facts?

ہم حقاٸق کو قبول یا مسترد کیوں کرتے ہیں۔  Why do we accept or reject facts?

انیسویں صدی کی ایک مشہور رومن حکایت ہے کہ ایک روز سچ اورجھوٹ کی ملاقات ہوٸی۔

جھوٹ نے سچ سے کہا ، ” آج ایک شانداردن ہے “ ۔ سچ نے اسکی بات سن کر  غیر یقینی انداز میں آسمان کی طرف دیکھا ۔ دن واقعی بہت روشن اور خوبصورت تھا ۔

وہ ایک ساتھ بہت وقت گزارتے ہیں اوربالآخر ایک کنویں پرپہنچ جاتے ہیں ۔ جھوٹ سچ کو بتاتا ہے کہ پانی بہت شفاف اور تازہ ہے  آٸیے! مل کر غسل کریں “۔

سچ مشکوک انداز میں پانی کی جانچ کرتا ہے ۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ پانی واقعی بہت شفاف اور تازہ ہے ۔ وہ کپڑے اتارتے ہیں اور نہانے لگتے ہیں ۔

اچانک جھوٹ پانی سےباہر آتا ہے ، سچ کےکپڑے پہنتا ہے اور بھاگ جاتا ہے ۔ سچ مشتعل ہو کر کنویں سےباہر آتا ہے جھوٹ کو ڈھونڈنے اور اور اپنے کپڑے واپس لانے کے لیٸے دوڑتا ہے ۔ دنیا سچ کو عریاں دیکھ کر حقارت اور غصے سے نظریں پھیر لیتی ہے  بیچارہ سچ شرمندہ ہو کر کنویں پر لوٹتا ہے اور اپنا آپ کنویں میں چھپا لیتا ہے ۔

جھوٹ سچ کا لباس پہنے دنیا کا سفر کرتا ہے اور معاشرے کی ضروریات پوری کرتا ہے ۔

دنیا عریاں سچاٸی سے ملنے کی کوٸی خواہش نہیں رکھتی ۔ سچاٸی جب بھی تاریک کنویں کی گہراٸی سے نکل کر سامنے آنے کی کوشش کرتی ہے دنیا اس کی عریانی کو دیکھ کرمنہ پھیر لیتی ہے اور اس سےنفرت کا اظہار کرتی ہے ۔

دوسری جانب جھوٹ سچ کا لباس زیب تن کٸے تمام دنیا میں گھومتا ہے اور دنیا اس سے محبت کرتی ہے اور اسے عزت دیتی ہے۔

سچ جانتا ہے کہ جھوٹ نے اپنا لباس وہیں کنویں کے پاس چھوڑ دیا ہے  ۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا والوں کی نفرت انگیز نظروں سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ جھوٹ کے لباس کو زیب تن کر کے اپنی عریانی کو چھپاۓ ۔

اور آج تک جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا بہت مشکل ہے سواۓ ان لوگوں کے جنہوں نے عریاں سچاٸی کو دیکھ رکھا ہے ۔

ہم میں سے اکثر لوگ تکلیف دہ حقاٸق کا سامنا کرنے سے اسی طرح گھبراتے ہیں اور اپنے ذہنی سکون کو قاٸم رکھنے کے لٸے ایک خاص حد تک حقاٸق کو قبول یا مسترد کرتے ہیں۔

یہ حقاٸق ہماری ذاتی زندگی ، مالی معاملات یا آپس کے تعلقات سے متعلق ہو سکتے ہیں ۔ یہ وہ پہلو ہیں جہاں ہم اکثر تکلیف دہ سچاٸیوں سے منہ پھیر لیتے ہیں خواہ ایسا کرنا ہمارے لیٸے نقصان دہ ہی کیوں نہ ہو ۔

معاشرتی سطح پر بھی کٸی ایسے پہلو ہیں جہاں ہم عریاں حقاٸق سے صرفِ نظر کرتے ہوۓ نہ صرف خود کو بلکہ اپنے معاشرے اور بعض اوقات تمام انسانیت کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں ۔مثلا گلوبل وارمنگ کے خطرے کوبھانپنے کے باوجود ہم صنعتی انقلاب اور مالی فواٸد حاصل کرنے کے لیٸے زمین پر زندگی کی بقا کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں ۔

ثقافتی اختلافات یا نسلی تعصبات کی صورت میں بھی ہم سیاسی طاقت اور برتری کی خاطر جانتے بوجھتے انسانیت پر ظلم کرنے پر کمربستہ رہتے ہیں  خاص طور پر اس صورت میں جبکہ وہ ہمارے ذاتی فاٸدے کی بات ہو خواہ اقتصادی طور پر یا سیاسی مفادات کے تحفظ کی صورت میں ۔

جھوٹ اور سچ کی یہ کہانی یہ واضح کرتی ہے کہ ہم کیوں اپنے ساتھ یہ سب کر رہے ہیں مگر جس بات کا جواب نہیں ملتا وہ یہ ہے کہ کیا ہم کبھی اس سے کوٸی سبق بھی حاصل کریں گے ؟

۔

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (14)
  • comment-avatar
    Sadia 3 years

    Very informative

  • comment-avatar
    Rahma 3 years

    Amazing personification between sach and jhoot.

  • comment-avatar
    Kashif Khan 3 years

    بہت اعلیٰ مضمون حقیقت سے بھرپور

  • comment-avatar
    Nayyar 3 years

    Very well written and quite meaningful

  • comment-avatar
    Wajiha 3 years

    So true..

    History is a set of lies agreed upon-Napoleon Bonaparte.

  • comment-avatar
    Aysha 3 years

    Awesome, beautifully described a sensitive issue

  • comment-avatar
    AK 3 years

    beautifully described a sensitive issue.
    Awesome

  • comment-avatar
    Erum 3 years

    Extraordinarily perceptive and profoundly insightful as usual 

  • comment-avatar
    Faiza Aamir 3 years

    Story is interesting explaining the bitter reality. It’s happening in our daily lives too that we neglect the facts sometimes and honestly it’s hard to tell that whether we ll learn any lesson or not.

  • comment-avatar
    Nabeeha Kashif 3 years

    جھوٹ نے کتنے پیرہن بدلے
    سچ ہمیشہ سے بے لباس رہا

  • comment-avatar
    Rabia Manan 3 years

    very positive article, to guide us.

  • comment-avatar

    Thank you for all of your support and encouragement.

  • Disqus (0 )