اکتسابی بے بسی، تعارف اور تجزیہ Learend Helplessness, Introduction and Analysis

اکتسابی بے بسی، تعارف اور تجزیہ Learend Helplessness, Introduction and Analysis

  ماہر نفسیات مارٹن سیلگ مین اور نیورو بائیولوجی کے محقق سٹیون مائیر نے1967 ایک تجربے کے ذریعے اس بات کو واضح کیا کہ بےبسی اور بے چارگی کی کیفیت کس طرح ذہن کو متاثر کرتی ہے ۔  اس نظریے کو اس نے اکتسابی بےبسی کا نام دیا ہے ۔ یہ نظریہ دو حصوں پر مشتمل ایک تجربے کے بعد تشکیل دیا گیا جہاں کتوں کے دو گروہوں کو برقی جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا۔

اگرچہ جانوروں پر اس قسم کے تجربے کرنا ظالمانہ فعل دکھائی دیتا ہے مگر اس تجربے نے ذہن سازی میں کردار ادا کرنے والے اہم نکات پر روشنی ڈالی ۔

تجربے کے پہلے حصے میں کتوں کو دوگروپوں میں تقسیم کیا گیا ۔  گروپ نمبر 1 کے کتوں کو ایک پنجرے میں بند کر کے بجلی کے جھٹکے دیے جاتے اور ان کے لئے ان جھٹکوں کو روکنے کے لئے ایک لیور لگایا گیا تھا جس کو  اپنی ناک سے دبا کر ان جھٹکوں کو روک سکتے تھے ۔

دوسرے گروپ کے کتوں کی لیور تک رسائی نہیں تھی ، جب انہیں بجلی کا جھٹکا لگتا تو انہیں ناگزیر طور پر اسے برداشت کرنا پڑتا ۔ چنانچہ وہ خاموشی سے لیٹ کر ان جھٹکوں کو برداشت کرتے اور ان کے ختم ہونے کا انتظار کرتے ۔

 

 تجربے کے دوسرے حصے میں ان دونوں گروپوں کے کتوں کو ایک ہی باکس میں رکھا گیا ۔ اس باکس کو دو حصوں میں تقسیم کر کے درمیان میں رکاوٹ لگائی گئی تھی ۔ جب ان کتوں کو برقی جھٹکا ملتا تو وہ رکاوٹ عبور کر کے دوسری جانب جا سکتے تھے اور یوں خود کو اس جھٹکے سے بچا سکتے تھے ۔

ایسا کرنے پر اس گروپ کے کتے جو لیور دبا کر برقی جھٹکے سے بچنا سیکھ چکے تھے برقی جھٹکا ملتے ہیں رکاوٹ عبور کر کے دوسری جانب چلے گئے لیکن وہ کتے جن کے پاس اس تجربے کے پہلے مرحلے میں میں لیور تک رسائی نہیں تھی ،اس مرحلے میں جھٹکا ملتے ہی انہوں نے  رکاوٹ عبور کر کے خود کو بچانےکی بالکل کوشش نہ کی اور اور خاموش لیٹ کر انتظار کرنے میں ہی عافیت محسوس کی ۔

اگرچہ وہ اس باکس میں رکاوٹ کو آسانی سے عبور کر کے خود کو اس تکلیف سے بچا سکتے تھے لیکن تجربے کے ابتدائی حصے میں بار بار کی ناکامی کے بعد کتوں کو جس ذہنی تناؤ سے گزرنا پڑا اس نے انہیں یقین دلایا کہ ان جھٹکوں سے بچنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔

 

 تجربے کے اختتام پر، محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دوسرےگروپ کے کتوں نے ابتدائی صدمے کے جواب میں بنیادی طور پر بے بسی کو “سیکھا”۔

 یہ اکتسابی بے بسی کے نظریہ کی بنیاد تھی، جسے بعد میں سیلگ مین نے دوبارہ جانچا اور درست کیا۔

سلگمنٹ اور ملر نے طویل تحقیق کے بعد یہ نظریہ پیش کیا  کہ مذکورہ کتوں نے جس بے بسی کے رویے کا مظاہرہ کیا ہے وہ ایک طویل تناو کا ردعمل تھا ۔

دوسرے لفظوں میں، کتوں نے درحقیقت بے بس رویہ نہیں سیکھا بلکہ اس کے بجائے یہ سیکھنے میں ناکام رہے کہ انتہائی دباؤ سے کیسے بچا جا یے۔

اسی طرح انڈیا میں جب کسی ہاتھی کے چھوٹے بچے کوپکڑا جاتا ہے تو اسے قابو میں رکھنے کے لیے اسے ایک پتلی رسی سے باندھا جاتا ہے ۔ وہ پہلے تو آزاد ہونے کی جدوجہد کرتا ہے  اور رسی کو پوری قوت سے کھینچتا ہے  لیکن آخر کار اسےاحساس ہو جاتا ہے کہ وہ اس رسی کو نہیں کھینچ سکتا لہٰذا وہ ہار مان لیتا ہے۔

ایک دن وہ بچہ ایک توانا ہاتھی کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ بڑے بڑے درختوں کو گرا سکتا ہے مگر وہ اسی رسی سے بندھا رہتا ہے اور اس سے آزاد یونے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اپنے مہابت کا انتظار کرتا رہتا ہے کہ وہ آئے اور اسے کھولے ۔ دراصل اسے اس رسی نے نہیں بلکہ ایک غیر مرئی خیالی رسی نے باندھ رکھا ہوتا ہے ۔ اس رسی سے آزاد ہونے کی طویل ناکام جدوجہد نے انہیں سمجھا دیا ہے کہ رسی اب بھی اسے اسی طرح جکڑے ہوئے ہے اور وہ آزاد ہونے کی کوشش نہیں کرتے ۔

اگر کوئی شخص دستیاب وسائل اور مدد کے باوجود اپنے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرتا  تو وہ   اکتسابی بے بسی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اکتسابی بےبسی تحریک کی کمی پیدا کرتی ہے اور انسان میں عملی جدوجہد کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے ۔

بےبسی کا یہ احساس افراد،  معاشرے اور بالآخر قوموں کو متاثر کرتا ہے اور ان کے مجموعی طرزِعمل اور رویے کا تعین کرتا ہے مثلا جب کرپشن اور دھاندلی کے باعث لوگوں کے پسندیدہ امیدوار جیت نہیں پاتے تو وہ انتخابی عمل سے ہی لاتعلق ہو جاتے ہیں کیونکہ بار بار کے تجربے نے انہیں یہ باور کروایا دیا ہے کہ ان کا ووٹ ان کے لئے کسی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتا ۔ہم اپنے مخصوص حالات کے باعث ایک وقت میں کسی ایک نتیجے پر پہنچتے ہیں پھر جب حالات بدل جاتے ہیں تو ہم اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا بھول جاتے ہیں اور خود کو بدلے ہوئے حالات کے مطابق نہیں ڈھالتے جس کے نتیجے میں مواقع ضائع ہو جاتے ہیں ۔

سیلگ مین کا نام کئی سالوں سے سیکھی ہوئی بے بسی کے حوالے سے جانا جاتا ہے ، لیکن اس موضوع پر اس کے کام نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ بےبسی کے احساس کی طرح دیگر احساسات کو بھی سیکھا جا سکتا ہے اور لوگوں  کو بےبسی کے احساس سے نکال کر مثبت خصلتوں کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے ۔

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )