پاکستان میں جذام کےمریضوں کی نجات دہندہ روتھ فاؤ کی متاثر کن زندگی The inspiring life of Ruth Fau, the savior of leprosy patients in Pakistan

پاکستان میں جذام کےمریضوں کی نجات دہندہ روتھ فاؤ کی متاثر کن زندگی  The inspiring life of Ruth Fau, the savior of leprosy patients in Pakistan

بے لوث محبت کی علامت ڈاکٹر روتھ کیتھرینا مارتھا فاؤ ایک جرمن راہبہ تھیں جنہوں نے پاکستان میں جذام کے مرض کے خاتمے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی تھی ۔ انہیں پاکستان کی ’مدر ٹریسا‘ بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر روتھ فاؤ 9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہوئیں پانچ بہنوں میں وہ سب سے چھوٹی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ بمشکل اتحادیوں کی بمباری سے بچ پائی تھیں مگراس بمباری نے ان کا گھر تباہ کر دیا۔

انہیں ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اور 1948 میں وہ مشرقی جرمنی سے فرار ہو کر اپنے والد کے ہمراہ مغربی جرمنی آ گئیں اور یہاں ویزباڈن یونیورسٹی آف مینز اور ماربرگ میں طب کی تعلیم حاصل کی۔

گریجویشن کے بعد انہوں نے ڈوٹرز آف ہارٹ آف میری سوسائٹی میں شمولیت اختیار کی، جب وہ 29 سال کی تھیں تو سوسائٹی نے انہیں ہندوستان بھیج دیا لیکن ویزے کے کچھ مسائل کی وجہ سے وہ کراچی پہنچ گئیں۔  ڈاکٹر روتھ نے پاکستان میں جذام کی وجہ سے ہونے والی تباہی کا مشاہدہ کیا اور اپنی باقی زندگی کوڑھ کے شکار لوگوں کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کیا۔

ڈاکٹر روتھ نے پاکستان کے تمام علاقوں کا دورہ کیا اور دیکھا کہ جذام میں مبتلا مریضوں کے لیے علاج معالجے کے لئے ہسپتال نہیں ہیں۔ انہوں نے فنڈز اکٹھے کیے، اور جرمنی اور پاکستان سے حاصل کردہ عطیات کی مدد سے انہوں نے ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر قائم کیا۔ 1968 میں حکومت پاکستان کو میری ایڈیلیڈ لیپروسی سنٹر کے ساتھ مل کر نیشنل لیپروسی کنٹرول پروگرام شروع کرنے اور پورے ملک میں کلینک قائم کرنے پر راضی کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ 1988 میں ڈاکٹر روتھ کو پاکستانی شہریت سے نوازا گیا۔ 1989 میں، انہوں نے افغانستان کا دورہ کیا اور جذام میں مبتلا مریضوں کے لیے کام کیا۔

ان کی انتھک محنت اور ہمت کے باعث 1996 میں عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو جذام سے پاک ملک قرار دیا ۔

ڈاکٹر روتھ نے پاکستان میں اپنی خدمات کے بارے میں جرمن زبان میں چار کتابیں لکھیں۔ ڈاکٹر روتھ نے اپنی بےکوث خدمات کو تا عمر جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ۔

ان کے ادارے سے صحت یاب ہونے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ اگر وہ نہ ہوتیں تو ہم جیسے مریض سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوتے ۔

وہ مریضوں کو اپنے بچوں کی طرح عزیز رکھتیں ۔ ایسے مریض جن کے لواحقین ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے تھے یہ ان کے ساتھ ایک برتن میں کھانا کھاتیں

ڈاکٹر روتھ کو ان کی خدمات کے لیے مختلف اعزازات سے نوازا گیا۔ 1969 میں انہیں آرڈر آف میرٹ، نشان قائداعظم، 1979 میں ہلال امتیاز، 1989 میں ہلال پاکستان، 2002 میں ریمن میگسیسے ایوارڈ، 2003 میں جناح ایوارڈ، 2004 میں ڈاکٹر آف میرٹ سے نوازا گیا۔

وہ 2005 کے زلزلے اور 2010 میں جنوب مغربی پاکستان میں تباہ کن سیلاب کے بعد امدادی کارروائیوں میں مدد کرنے میں بہت سرگرم رہیں۔

ڈاکٹر روتھ 10 اگست 2017 کو کراچی کے اسپتال میں انتقال کرگئیں۔ قوم ایک دردمند اور مخلص وجود سے محروم ہوگئی، ایسی محنتی ڈاکٹر جس نے ملک کے عوام کے لیے درد محسوس کیا جس نے انہیں گود لیا۔

انہوں نے پانچ دہائیوں تک اس ملک کی خدمت کی ۔ پاکستان میں جذام کے خاتمے کا سہرا ان کے سر ہے۔

 

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (3 )