ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں Nothing is impossible if the intention is Strong.

ارادہ پختہ ہو تو کچھ بھی ناممکن نہیں                         Nothing is impossible if the intention is Strong.
ایک گمشدہ بچے سارو، کی کہانی
چند دن قبل مجھے نیٹ فلیکس پر ایک ایسی فلم دیکھنے کا موقع ملا جو ایک سچے واقعے پر مبنی تھی اور جس کو دیکھنے کے بعد مجھے اس بات پر قوی یقین ہو گیا کہ خون کے رشتے زندگی میں کس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی موجودگی وہ طاقت بخش ٹانک ہے جو صحت مند زندگی گزارنے کے لیے ازحد ضروری ہے۔
       یہ ایک گمشدہ بچے سارو کی کہانی ہے جو پانچ سال کی عمر میں انڈیا کے ایک ریلوے سٹیشن پر گم ہو گیا تھا۔
سارو مدھیہ پردیش کے علاقے کھنڈوا کا رہنے والا تھا ۔ اس کے والدین میں علیحدگی ہو چکی تھی ۔ اس کی والدہ بچوں کی کفالت کے لیے تعمیرات میں پتھر توڑنے کا کام کرتی تھی مگر اتنا پیسہ نہ کما سکتی تھی کہ بچوں کو تعلیم دلوا سکے ۔ سارو کا بڑا بھائی چھوٹے موٹے کاموں سے پیسہ کماتا تھا بعض اوقات ریلوے سٹیشن کا فرش صاف کر کے یا ٹرین سے کوئلہ چرا کر اسے بیچتا۔
ایک روز گڈو نے اسے بتایا کہ وہ قریبی شہر برہان پور جا رہا ہے جہاں اسے کوئی کام ملا ہے اس پر سارو نے بھی ساتھ چلنے کی ضد کی ۔ گڈو نے پہلے تو انکار کیا مگر اس کی ضد سے مجبور ہو کر اسے ساتھ لے گیا۔ جب ٹرین برہان پور پہنچی تو سارو اتنا تھک چکا تھا کہ سو گیا۔ گڈو نے اسے پلیٹ فارم کی ایک سیٹ پر لٹا دیا اور جلد واپسی کا کہ کر چلا گیا۔
گڈو واپس نہیں آیا سارو کی آنکھ کھلی تو اس نے سامنے ایک ٹرین کو کھڑے دیکھا اور گڈو کو اس میں سوار سمجھتے ہوۓ خود بھی اس میں سوار ہو گیا اوردوبارہ سو گیا۔ جب اس کی آنکجھ کھلی تو ٹرین کسی نا واقف راستے پر سفر کر رہی تھی۔ کبھی کبھار ٹرین کسی چھوٹے سٹیشن پر رک جاتی سارو اترنے کے لۓ دروازہ کھولنے کی کوشش کرتا مگر دروازہ نہ کھول پاتا۔ اس کا یہ سفر کلکتہ میں ختم ہوا جو کہ اس کے آباٸی شہر سے 1500 کلو میٹر دور تھا۔
سارو نے مختلف ٹرینوں میں سوار ہو کر وطن جانے کی کوشش کی مگر وہ مضافاتی ٹرینیں ثابت ہوئیں ۔ وہ ریلوے سٹیشن کے آس پاس رہا ۔ وہ کوڑے کرکٹ میں سے کھانا تلاش کر کے کھاتا اور سٹیشن کی سیٹوں کے نیچے سو کر وقت گزارتا رہا بالآخر وہ ایک نوجوان سے ملا جو اسے پولیس سٹیشن لے گیا اور اطلاع دی کہ وہ ایک گمشدہ بچہ ہو سکتا ہے ۔ پولیس نے اسے گمشدہ بچوں کے سرکاری مرکز میں داخل کروا دیا ۔ وہاں کے عملے نے  اس کے گھر والوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر کم عمری کے باعث سارو اپنے آباٸی شہر کےبارے میں کافی معلومات فراہم نہ کر سکا کہ ان کا سراغ لگا یا جا سکتا چناچہ سرکاری طور پر اسے گمشدہ  بچہ قرار دے دیا گیا ۔
ایک روز آسٹریلیا سے آۓ ایک بےاولاد جوڑے نے گمشدہ بچوں کےاس مرکز کا دورہ کیا ۔ وہ ایک بچے کو گود لینے کےخواہش مند تھے ۔آخر کار آسٹریلیا کی برئیرلے فیملی نے اسے گود لے لیا اور تسمانیہ کے شہر ہوبارٹ لے آۓ ۔ سارو اپنےآسٹریلوی خاندان کے ساتھ ہوبارٹ میں پلا بڑھا جلد ہی وہ انگلش بولنا سیکھ گیا اور ہندی بھول گیا۔ 25 سال کی عمر میں اس نے کینبرا کے آسٹریلین انٹرنیشنل ھوٹل سکول سے بزنس اور ہوسپیٹیلیٹی کی ڈگری لی۔
اتنے برسوں بعد بھی وہ ہندو ستان میں موجود اپنے خاندان کو نہیں بھولا تھا۔ اپنے بھائی کی مبہم یادیں اسے بے چین رکھتیں ۔ اسے دنیا کی ہر نعمت حاصل تھی مگر بچپن میں بچھڑ جانے والے رشتوں کی یادیں اسے بے قرار رکھتیں ۔   اپنی مبہم یادوں پر بھروسہ کرتے ہوۓ اس نے تین سال تک گوگل ارتھ کے زریعے اپنے وطن کی تلاش جاری رکھی ۔ 2011 کی ایک رات اسے سیٹلائٹ امیجز میں وہ ریلوے سٹیشن نظر آیا جہاں وہ ٹرین کے خالی ڈبے میں پھنس گیا تھا ۔ اس اسٹیشن کا نام اس صوتی ہجے کے قریب تھا جو اس کی بچپن کی یادوں میں محفوظ تھا ۔ اس نے ریلوے لائن کی سیٹلائٹ تصویر کی پیروی کی اور شمال کی طرف اسے کھنڈوا شہر ملا ۔ اس شہر میں کئ ایسی جگہیں تھیں جو وہ پہچان سکتا تھا ۔ جیسے کہ ریلوے لائن کے قریب چشمہ جہاں وہ کھیلا کرتا تھا اور گلیوں میں وہ اس راستے کو شناخت کر سکتا تھا جہاں وہ رہا کرتا تھا ۔
سارو نے کھنڈوا کے ایک فیس بک گروپ سے رابطہ کیا۔ اس گروپ سے اسے حوصلہ بخش جواب موصول ہوا اور اسے یقین ہو گیا کہ کھنڈوا ہی اس کا آباٸی شہر ہو سکتا ہے ۔ چناچہ اس نے ہندوستان کا سفر کیا اور کھنڈوا کے رہائشیوں سے پوچھا کہ کیا وہ کسی ایسے خاندان کو جانتے ہیں جن کا بچہ 25 سال قبل کھو گیا ہو ۔ اس نے لوگوں کو اپنے بچپن کی تصاویر بھی دکھائیں ۔ مقامی لوگوں نے جلد ہی اسے اس کی والدہ تک پہنچا دیا ۔ اس کی بہن شکیلہ اور بڑا بھائی کالو بھی اس کے ساتھ تھے مگر سارو کو یہ افسوس ناک اطلاع ملی کہ جس رات وہ ریلوے سٹیشن پر کھو گیا تھا اسی رات اس کا بھائی گڈو ایک ٹرین کی ٹکر سے ہلاک ہو گیا تھا ۔ اس موقع پر سارو کو اپنی ماں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا اصل نام سارو نہیں بلکہ شیرو تھا ۔
اس ری یونین کو بڑے پیمانے پر ہندوستانی اور بین الاقوامی میڈیا نے کور کیا ۔ اب سارو آسٹریلیا میں رہتا ہے مگر اکثر اپنے کنبے سے ملنے ہندوستان آتا ہے ۔ اس نے کولکتہ جانے والی ٹرین پر فرسٹ کلاس کا ٹکٹ خرید کر دوبارہ سفر بھی کیا تا کہ چوتھائی صدی قبل کے اس سفر کی یاد تازہ کر سکے جب وہ اپنے کنبے سے بچھڑ گیا تھا ۔ سارو نے اپنی کتاب  ، اے لانگ وے ہوم، شایع ٔ کی جس میں اس نے پانچ برس کی عمر میں کھو جانے ،آسٹریلین فیملی کے ایڈاپٹ کرنے اور پھر اپنی حقیقی فیملی کی تلاش کی تمام کہانی لکھی ۔ 2016 میں اس کی کہانی پر فلم بنائی گئی جو کہ آسکر ایوارڈ کے لۓ بھی نامزد ہوئی ۔
یہ کہانی ذہنوں میں کئی ایک سوالات اٹھاتی ہے مثلا سارو جو اتنی چھوٹی عمر میں اپنے  خاندان سے بچھڑ گیا تھاکہ ان کی کوئی مکمل یاد بھی اس کے پاس نہ تھی اور جو تھیں وہ بھی انتہائی تکلیف دہ اور اس کی موجودہ خشگوار زندگی کے مقابلے میں انتہائی ناگفتہ بہ تھیں پھر آخر وہ کون سا جذبہ تھا جس نے اسے اپنے خاندان کو تلاش کرنے پر مائل کیا ۔ زندگی میں کوئی کمی نہ ہوتے ہوۓ بھی وہ خود کو کیوں اکیلا اور نامکمل محسوس کرتا تھا ۔
یہ درد ،جدوجہد ،امید اور محبت کی ایک متاثر کن کہانی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ اپنے وطن،خاندان اور ثقافت سے محبت کا عنصر انسانی روح میں پروان چڑہتا ہے جس پر وقت اور فاصلہ اثر انداز نہیں ہو سکتے ۔

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )