شباب سے پہلے ( حصہ پنجم )

شباب سے پہلے ( حصہ پنجم )
میرے والد نے یہ مژدہ جاں فزا سنایا کہ پاکستان بن گیا ہے
میرے والد صاحب نے گھر آ کر یہ مژدۂ جانفزا سنایا کہ پاکستان بننے کا اعلان ہو گیا ہےجہاں ہم رہتے ہیں وہ علاقہ پاکستان میں شامل ہے  ۔ میں نے دیکھا کہ اس خوشی کے موقع پر خوشی کے ساتھ ساتھ ان کے چہرے پر غم کی گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں ۔ بعد میں خود ہی انہوں نے اس رنج کا اظہار فرمایا کہ ہمارا وطن عزیز فیض اللہ چک ہندو ستان میں شامل کر دیا گیا ہے ۔ ہمارے عزیز رشتہ دار تمام ان علاقوں میں مقیم تھے جو مشرقی پنجاب میں تھے ۔ مشرقی پنجاب میں خاک وخون کا کھیل کھیلا جا رہا تھااس لیۓ ہم لوگ اپنے رشتہ داروں کے لیۓ سخت پریشان تھے  ۔ میری بہن میرے چچا صاحبان، ماموں صاحب وغیرہ سب کے سب مشرقی پنجاب میں تھے ۔ کئ روز تک ہمارے گھر پر غم کی  گھٹایئں چھائی رہیں ۔ ہمارے عزیزوں کو بھی ان تمام مراحل سے گزرنا پڑاجو دیگر مسلمان مہاجرین کو درپیش تھے ۔ باہزار دقت خطرات سے بچتے بچاتے سب لوگ خدا کے فضل سے بخیر و عافیت صرف جانیں لے کر اپنے محبوب پاکستان میں آن پہنچے ۔ جب ہمیں اپنے عزیزان کی خیریت کی خبر ملی تو ہم سب سجدۂ شکر بجا لاۓ ۔ میرے والد صاحب نے میری بہن اور بہنوئی ، میرے چھوٹے چچا اور ان کے بچوں کو اپنے پاس بلا لیا جب تک ان کے گھروں کا متبادل انتظام نہ ہو گیا ۔
  پاکستان بنتے ہی ہماری نوزائیدہ مملکت خداداد پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ مشرقی پنجاب سے تباہ حال مہاجرین کا سلسلہ ٔ آمد شروع ہو گیا ۔ ایسی ابتری کی حالت میں کثیر تعداد مہاجرین کی آباد کاری کا مسٔلہ جوۓ شیر لانے کے مترادف تھا۔فیروز پور اور راجپوتانہ سے آمدہ مہاجرین ریاست بہاولپور کے راستہ دریاۓ ستلج کو ہیڈ اسلام پرسےعبور کرتے ہوۓ لڈن سے گزر رہے تھے ۔ ہر روز مہاجرین کے قافلے ہمارے گھر کےسامنے سے گزرتے ۔ غمزدہ مہاجرین کی غم کی داستانیں سنی نہ جاتی تھیں ۔ بچے بوڑھے اور عورتیں بھی ظلم سے مستثنیٰ نہ تھے ۔ میں اچھی طرح ان واقعات کا مطلب نہ سمجھتا تھا ۔ سخت حیران تھا کہ صدیوں سے آباد گھرانوں کو کس بنا پر گھر سے بے گھر کیا جا رہا ہے ۔ آخر ان بےکس مسلمانوں کا قصور کیا ہے ۔ ہندو سکھ اور مسلمان صدیوں سے ہندوستان میں اکٹھے رہتے چلے آرہے ہیں۔ یہ لوگ ایک خاندان کی مانند تھے آخر یک بیک وہ اتحاد کیا ہوا ۔ باہمی محبت اور تعلقات کچے دھاگے کی طرح کیوں ٹوٹ گیۓ  ۔ ایک ساعت میں دلوں میں اس کدورت ، کینہ پروری اور بغض و عناد نے کیونکر جنم لے لیا ۔ انسان نے حیوان کا روپ کیوں دھار لیا ہے۔ میں نے مہاجرین سے جو کچھ سنا وہ میرے لیے بہت حیران کن تھا ۔ میں اس نوعیت کے واقعات  ظلم و ستم اور جوروجفا سے اس وقت تک قطا” ناآشنا تھا۔ اس قسم کے واقعات پاکستان میں بھی رونما ہو رہے تھے ۔ مشرقی پنجاب کے مظلوم مسلمانوں کا بدلہ لینے کے لیۓ مغربی پنجاب میں بھی مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا مگر میرے گردوپیش کامل امن رہا۔ یہاں کے ہندو اور سکھ امن و امان سے تھے ۔ میاں ریاض دولتانہ نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کے لڈن میں اور اس کے گردو نواح میں اس قسم کا کوئی غیر انسانی اور غیر اسلامی واقعہ پیش نہ آۓ ۔ ہندوؤں کو ہر طرح سے مطمئن رہنے کا یقین دلایا ۔ اس اپیل کا خاطر خواہ اثر ہوا  ۔ میاں دولتانہ چونکہ مالک کی حیثیت رکھتے تھے اس لیۓ مزارعین اور دیگر لوگوں نے ان کے حکم سے سرتابی نہ کی اس لیۓ میں نے اپنی آنکھوں سے فسادات کی جھلک تک نہیں دیکھی ۔ ایسے ہی حالات میں دو ماہ کی رخصتیں ختم ہو گئیں مگر حکومت کی طرف سے 15 دن کے لیۓ مزید رخصتیں دے دی گئیں ۔ اڑھائی ماہ بعد جب میں دوبارہ سکول آیا تو کایا پلٹ چکی تھی ۔
سکول ویران ویران سا نظر آ رہا تھا ۔ ہمارے ہندو اور سکھ اساتذہ غائب تھے ۔ ہمارے غیر مسلم کلاس فیلو ہمیشہ کے لیۓ ہم سے جدا ہو چکے تھے ۔ بعض عزیز غیر مسلم دوستوں کی جدائی بہت شاق گزری خواہ وہ ہندو تھے یا سکھ مگر محبت ایک فطری جزبہ ہے جس کے تحت ان دوستوں کے لیۓ بے چینی اور بے قراری ایک لازمی امر تھی ۔ جانے والے غیر مسلموں کی جگہ مسلم مہاجرین آ آ کر آباد ہو رہے تھے ۔ الاٹ منٹ کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ دکانیں الاٹ ہو رہی تھیں مکان الاٹ ہو رہے تھے زمین الاٹ ہو رہی تھی ۔ ہمارے چند ایک عزیز بھی وہاڑی میں آباد ہو گیۓ۔ میرے بہنوئی نے مکان اور دکان الاٹ کروا لیا تب میں ہوسٹل چھوڑ کر اپنی ہمشیرہ کے ہاں رہنے لگا ۔ ہمارے سکول میں نیۓ نیۓ چہرے نظر آنے لگے ۔ مہاجر طلبا بغیر سرٹیفکیٹ کے آتے تھے اس لیۓ داخلے کا مسٔلہ بہت مشکل ہو گیا تھا۔ بعض طلبا غلط بیانی سے کام لے کر بڑی کلاسوں میں داخلہ لے رہے تھے۔ سکول کھلنے کے دو ماہ تک خوب ہنگامہ رہا ۔ شہر کی زندگی میں نیا رنگ بھرا جاتا رہا ۔ نیۓ لوگ نئی باتیں نئی زبانیں نئی طرز معاشرت  ۔ دور سے آنے والے مہاجرین منفرد طرز کے تھے ۔ ان کی زبان ہماری سمجھ میں بالکل نہ آتی ان کی بودوباش ہندووانہ تھی ۔
رفتہ رفتہ زندگی میں ایک ٹہراؤ آ گیا ۔ متلاطم دریاۓ حیات میں سکون آ گیا ۔ فسادات رفتہ رفتہ کم ہوتے گیۓ ۔ آنے والے مہاجرین جلد جلد آباد ہوتے گئے ۔ حتہ’ کہ مشرقی پنجاب میں مسلمان آبادی قریباً ختم ہو گئ ۔
 
ہمارے شہر میں آنے والے مہاجرین اور مقامی باشندے بہت جلد ایک دوسرے سے قریب ہوتے چلے گیۓ ۔ اسلام کا رشتہ تمام رشتوں سے قریب تر ہے  ۔ اس رشتہ میں منسلک ہونے کے باعث بہت جلد ان میں رشتۂ اتحاد قائم ہو گیا ۔ میرے بھی نیۓ دوست بن گیۓ ۔ قیام پاکستان سے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ آزادی ملنے کے بعد ہماری حیثیت انگریز حکمرانوں کی سی ہو جاۓ گی ۔ ہم ان لوگوں کی طرح ٹھاٹ سے رہیں گے ۔ کوٹھیوں میں رہیں گے ، کاروں میں گھومیں گے ۔ محکوم لوگوں پر خوب رعب جمائیں گے ۔ مگر آزادی ملنے کے بعد میرے تصورات کے خلاف ہماری حالت جوں کی توں رہی بلکہ کچھ بدتر ہو گئ ۔ خود ہی حاکم اور خود ہی محکوم کیونکہ اقلیت تو تھی نہیں ۔ تاہم جذبۂ آزادی سے سرشار اہل وطن پاکستان کو عظیم پاکستان بنانے میں کوشاں ہو گیۓ ۔
CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )