شباب سے پہلے (حصہ چہارم )

شباب سے پہلے (حصہ چہارم )
مڈل پاس کرنے کے بعد میں ہاٸی سکول میں داخلے کے لیے وہاڑی آ گیا
مڈل پاس کرنے کے بعد میں ہائی سکول میں داخل ہونے کے لیۓ وہاڑی میں آ گیا ۔یہاں بورڈنگ ہاؤس میں رہنا پڑا گھر کا ماحول چھوڑ کر بورڈنگ کے ماحول سے مانوس ہونے میں بہت تکلیف ہوئی ۔ کہاں وہ گھر کا آرام ماں کا پیار باپ کی شفقت ،ان سب چیزوں سے یکسر محروم ہو گیا ۔ اگرچہ بورڈنگ کے پریذیڈنٹ صاحب مجھ پر بہت مہربان تھے کیونکہ وہ والد صاحب کو جانتے تھے ۔ میری عادات واطوار سے وہ بہت متاثر تھے۔ میرےساتھ جائیداد کے دوسرے افسر کے لڑکے بھی رہتے تھے ۔ ہم اکھٹے داخل ہوۓ تھے۔ پریزیڈنٹ صاحب ان لوگوں سے خفا ہوتے تو میری مثال دیتے کہ دیکھو کتنا اچھا لڑکا ہے ۔ میری تعریف سن کر وہ لوگ میرے سخت مخالف ہو گیۓاور انہوں نے مجھ سے خوب خوب بدلہ لیا ۔ مجھے ہر طرح تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی میری کتابیں چھپا دیتے رات کو نہ خود پڑھتے نہ مجھے پڑھنے دیا جاتا۔ ایک گھر کی جدائی دوسرا یہ ظلم و ستم میرا دل خون ہو گیا ۔ میں رات کو خوب روتا اور روتے روتے میرا تکیہ بھیگ جاتا مگر ان سب مخالفتوں کے باوجود میں نے ہمت نہ ہاری اور پڑھائی سے ایک دم بھی غافل نہ ہوا  ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سب کے سب نویں میں فیل ہو گیۓاور میں پاس ہو گیا ۔ فیل ہونے پر وہ لوگ سکول چھوڑ کر بھاگ گیےاور میں نے اطمنان کا سانس لیا۔
اب عنفوان شباب کا زمانہ ہے اور عنوان کی قید کی رو سے مضمون ختم ہوا چاہتا ہے  مگر اس کے بعد کے حالات بھی تحریر کرنا چاہتا ہوں اس لیے عنوان کی قید کو میں چنداں اہمیت نہیں دیتا ۔
ان دنوں مطالبہ پاکستان کی تحریک پورے شباب پر تھی۔ تمام ملک میں “لے کر رہیں گے پاکستان” کا نعرہ سر بلند ہو رہا تھا ۔ مسلمانوں کی واحد نمائیندہ جماعت مسلم لیگ خوب زور وشور سے کام کر رہی تھی۔ دور افتادہ دیہاتوں میں بھی حصول آزادی کے لیۓ مسلم لیگ کی شاخیں بن گئی تھیں۔ ان دنوں ہمارے گاؤں لڈن میں بھی اس کے زیر اثر ایک انجمن قائم ہو گئی تھی ۔ حکومت کے مسلمان ملازم حکومت سے خائف تھے اس لیے وہ لوگ کھل کر مسلم لیگ کی حمایت نہیں کرتے تھےاس کے علاوہ بعض پرانے قسم کے لوگ بھی اس مطالبہ کی اہمیت کو نہ سمجھتے ہوۓ ابھی اس جماعت کے حق میں نہ تھے ۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں جب میں گھر آیا تو معلوم ہوا کہ نوری نے سکول کے تمام مسلمان لڑکوں پر مشتمل ایک جماعت بنائی ہے جس کا نام  ” سکول مسلم لیگ ” رکھا گیا ہے ۔ میں بھی اس تحریک میں شامل ہو گیا۔ ہم لوگ تھانے داروں کے خوف سے شہر میں اجلاس نہیں کیا کرتے تھے بلکہ شام کے وقت باقاعدہ پریڈ کرتے ہوۓ جنگل میں چلے جاتے اور وہاں پر نوری کےزیر صدارت جلسہ ہوتا۔ مجھے یاد ہے کہ ہم صحیح معنوں میں پاکستان کا مطلب نہیں سمجھتے تھے مگر اس کے باوجود تمام مسلمان لڑکوں میں اس قدر جوش و خروش پایا جاتا تھا کہ ہم اس وقت ہر قسم کی قربانی کے لیۓ تیار تھے ۔ شہر میں جلوس نکالنا منع تھا مگر ایک روز ہم جلوس کی صورت میں جنگل سے واپسی پر شہر کی طرف آۓ اور تھانہ کے سامنے آ کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے ۔ تھانیدار مسلمان تھا ۔ وہ دل سے تو اس تحریک کا حامی تھا مگر ملازم ہونے کی وجہ سے مجبور تھا اس لیۓ اس نے جلوس کو منتشر کرنے کے لیۓ دو سپاہیوں کو لاٹھیاں دے کر بھیجا ۔ سپاہی جب ہمارے قریب آۓ تو ہم پہلے تو کچھ دیر اڑے رہے مگر جب انھوں نے لاٹھیاں ہوا میں لہراییں تو ہمارے پاؤں اکھڑ گیۓ اور بھاگنے میں ہی خیر سمجھی ۔
میاں دولتانہ تو ان دنوں بڑے لیڈروں میں شمار ہوتے تھے ۔ ان کے چچا زاد چھوٹے بھائی ریاض احمد دولتانہ لڈن  میں رہا کرتے تھے ۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ طالب علموں نے ایک تنظیم بنائی ہوئی ہے تو ایک روز انہوں نے نوری کو بلایا اور بتایا کہ ہمیں کس طرح مطالبۂ پاکستان کو عوام تک پہنچانا چاہیۓ۔ دوسرے دن شام کو وہ کار پر جنگل میں جہاں پر ہم جلسے کیا کرتے تھے خود تشریف لاۓاور تمام طلبا کو پاکستان کا مطلب اور آزادی کا مفہوم سمجھایا نیز انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہم لوگ ٹولیاں بنا کر قریب کے دیہات میں جا کر جاہل اور ان پڑھ دیہاتیوں کو قائد اعظم کا پیغام پہنچائیں چناچہ اس کے بعد ہمارا معمول ہو گیا کہ ہر روز صبح صبح ٹولیاں بنا کر مختلف دیہات میں نکل جاتے اور مسلم لیگ کا پروپیگنڈہ کرتے ۔ تب یہ خبریں آنا شروع ہوئیں کہ ملک بھر میں فسادات کی آگ بھڑک اٹھی ہے ۔ ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ہم نے یہ مژدہ بھی سنا کہ مفکر پاکستان کا خواب شرمندٔ تعبیر ہونے والا ہے ۔ قائد اعظم اور دوسرے لیڈران کی مساعی رنگ لانے والی ہیں۔
مسلمنانان ہند کی آواز نے شاہ انگلستان کو خواب سے بیدار کر دیا اور اسے انگریزی استبداد کے قہار خداؤں کو مجبور کرنا پڑا کہ اب ان  مظلوم ہندیوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرنا پڑے گا ۔ قائد اعظم کی بے پناہ قوت ارادی نےہزار مخالفتوں کے باوجود مسلمانان ہند کو صد سالہ غلامی کا جوأ گلے سے اتار پھینکنے پر آمادہ کر لیا ۔ شاعر مشرق کے آزادی کے نغموں نے اسلامیان ہند کے دلوں کو برما دیا ۔ اور جب ان میں شاعر مشرق کے پیغام سے عقابی روح بیدار ہو گئی تو انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی  ۔ قائد اعظم کا پیغام اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم مسلمانوں کے لیۓ بانگ درا ثابت ہوا ۔ کانگرس اور دیگر مخالف جماعتیں جو مطالبۂ پاکستان کو مجزوب کی بڑ سمجھتی تھیں اب انہیں بھی حقیقت نظر آنے لگا ۔ آخر کار وہ مبارک دن بھی آن پہنچا جس کے لیۓ دس کروڑ مسلمان سالوں سے چشم براہ تھے ۔ 14اگست 1947 کو قیام پاکستان کا اعلان ہو گیا ۔

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )