،جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتل عام کا واقعہ،ایک جائزہ Jallianwala Bagh massacre incident, a review

،جلیانوالہ باغ میں ہونے والے قتل عام کا واقعہ،ایک جائزہ  Jallianwala Bagh massacre incident, a review

جلیانوالہ باغ، بھارت میں مشرقی پنجاب کے ایک مشہور شہر امرتسر میں واقع ہے ۔اس باغ کی وجہ شہرت یہاں  1919ء میں ہونے والا قتل عام کا واقعہ ہے ۔ اس واقعے کی تفصیلات  بتانے سے پہلے ان بنیادی وجوہات  کا جائزہ لینا اشد ضروری  ہے جو اس واقعے کا باعث بنا ۔

اس واقعے کا باعث رسوائے زمانہ رولٹ ایکٹ مجریہ 21مارچ،1919ء تھا، جس کے ذریعے ہندوستانیوں کی رہی سہی آزادی بھی سلب کر لی گئی تھی۔ اس ایکٹ کے خلاف تمام ہندوستان میں مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے احتجاج کیا جا رہا تھا اور بغاوت کا سا ماحول پیدا ہو چکا تھا اور انگریز افسران کا خیال تھا کہ مئی کے مہینے میں جب گرمی کی شدت کے باعث برطانوی فوجی پہاڑی علاقوں کو منتقل ہو جاتے ہیں اس دوران کسی بغاوت کا خدشہ ہو سکتا ہے ۔

ایسی صورتحال نمٹنے کے لئے انتظامیہ نے کئی جگہوں پر کرفیو نافذ کر رکھا تھا ۔

امرتسر ان دنوں کئی وجوہات کی بنا پر عوامی اجتماعات کا مرکز بنا ہوا تھا ،بہت سے کسانوں تاجر اور دوکاندار بیساکھی کے میلے اور میلہ مویشیاں کے سلسلے میں یہاں آئے ہوئے تھے ۔

 کرنل ڈائر نے امرتسر کے فوجی کماندار کی حیثیت سے دیگر شہری اہلکاروں سے مل کر شہر کا گشت کیا اور شہر میں داخلے اور خارج ہونے کے لیے اجازت نامہ لینے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ رات آٹھ بجے سے کرفیو شروع ہو جائے گا اور تمام عوامی اجتماعات اور چار یا چار سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگائی۔ یہ اعلان انگریزی، اردو، ہندی اور پنجابی میں پڑھ کر سنایا گیا مگر بعد کے واقعات سے پتہ چلا کہ بہت کم لوگوں نے اسے سنا یا انہیں علم ہوا۔ اس دوران مقامی خفیہ پولیس کو پتہ چلا کہ جلیاں والا باغ میں عوامی اجتماع ہوگا۔ 12:40 پر ڈائر کو اس کی اطلاع دی گئی اور ڈیڑھ بجے وہ اپنے مرکز واپس لوٹا تاکہ اجتماع سے نمٹنے کی تیاری کر سکے۔

دوپہر تک ہزاروں سکھ، مسلمان اور ہندو جلیاں والا باغ میں ہرمندر صاحب کے پاس جمع ہو چکے تھے۔ بہت سارے لوگ گولڈن ٹمپل میں عبادت کر کے آئے تھے اور باغ کے راستے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ باغ چھ یا سات ایکڑ کے رقبے پر پھیلا ہوا تھا ۔ یہ رقبہ لگ بھگ دو سو گز لمبا اور دو سو گز چوڑا ہے اور اس کے گرد تقریباً دس فٹ اونچی چار دیواری موجود ہے۔ گھروں کی بالکونیاں زمین سے تین یا چار منزل اونچی ہیں اور وہاں سے باغ کا نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ باغ میں آنے کے کل پانچ تنگ راستے ہیں جن میں سے کئی کے دروازے مقفل تھے۔ برسات میں یہاں فصلیں بھی اگائی جاتی تھیں مگر سال کا زیادہ تر حصہ اس کا کام کھیل کے میدان اور محض عوامی اجتماعات تک ہی محدود رہتا تھا۔ باغ کے مرکز میں سمادھی (شمشان گھاٹ) بھی تھا اور بیس فٹ چوڑا ایک کنواں تھا جس میں پانی موجود تھا۔

۔ شہری پولیس نے 2 بجے میلہ بند کر ادیا جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگوں نے جلیاں والا باغ کا رخ کیا۔ اندازہ ہے کہ اُس وقت باغ میں بیس سے پچیس ہزار افراد جمع تھے۔ ڈائر نے باغ میں موجود لوگوں کی تعداد کا جائزہ لینے کی خاطر ایک ہوائی جہاز بھیجا۔ اس وقت تک کرنل ڈائر اور شہری انتظامیہ کے سربراہ ڈپٹی کمشنر اِرونگ کو مجمعے کا علم ہو چکا تھا مگر انہوں نے اسے روکنے یا پولیس کے ذریعے پرامن طور پر ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ بعد ازاں اسی وجہ سے ڈائر اور اِرونگ پر بہت تنقید کی گئی۔

اور اس کے ایک گھنٹے بعد کرنل ڈائر کل 90 گورکھا فوجی لے کر باغ پہنچا۔ ان میں سے 50 کے پاس تھری ناٹ تھری لی این فیلڈ کی بولٹ ایکشن رائفلیں تھیں۔ چالیس کے پاس لمبے گورکھا چاقو تھے۔ اس بارے علم نہیں کہ گورکھا فوجیوں کو برطانوی حکومت کے ساتھ ان کی غیر متزلزل وفاداری کی وجہ سے چنا گیا یا پھر اس لیے کہ اُس وقت غیر سکھ فوجی میسر نہ تھے۔ اس کے علاوہ مشین گن سے لیس دو بکتربند گاڑیاں بھی ساتھ آئی تھیں مگر ان گاڑیوں کو باہر ہی چھوڑ دیا گیا کہ باغ کے راستے بہت تنگ تھے اور گاڑیاں اندر نہیں جا سکتی تھیں۔ جلیاں والا باغ کے گرد ہر سمت رہائشی مکانات تھے۔ بڑا داخلی راستہ نسبتاً زیادہ چوڑا تھا اور اس پر فوجی پہرہ دے رہے تھے اور ان کی پشت پر بکتربند گاڑیاں موجود تھیں۔

ڈائر نے مجمع کو کوئی تنبیہ نہیں دی اور نہ ہی انہیں اجلاس ختم کرنے کا کہا اور اس نے اہم داخلی راستے بند کر دیے۔ بعد میں اس نے بتایا، ‘میرا مقصد مجمع ختم کرنا نہیں بلکہ ہندوستانیوں کو سزا دینا تھا‘۔ ڈائر نے فوجیوں کو حکم دیا کہ مجمع میں ان حصوں پر گولی چلائی جائے جہاں سب سے زیادہ افراد جمع ہوں۔ فائرنگ تب روکی گئی جب گولیاں تقریباً ختم ہو چکی تھیں اور اندازہً 1650 کارتوس چلے۔

بہت سارے لوگ بھگدڑ کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور دیگر کنویں میں چھلانگ لگا کر ہلاک ہوئے۔ آزادی کے بعد کنویں پر لگائی گئی تختی کے مطابق اس کنویں سے 120 لاشیں نکالی گئیں۔ زخمیوں کو بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ کرفیو نافذ تھا۔ رات میں کئی زخمی بھی ہلاک ہوئے۔

فائرنگ سے ہلاکتوں کی تعداد واضح نہیں۔ برطانوی تفتیش کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل اموات 379 ہوئیں مگر اس تفتیش کے طریقہ کار پر اعتراض ہوا۔ جولائی 1919ء میں قتلِ عام کے تین ماہ بعد ِحکام نے قتل ہونے والے افراد کا اتہ پتہ لگانے کی خاطر علاقے کے لوگوں کو بلوایا تاکہ وہ مقتولین کے بارے رضاکارانہ طور پر معلومات دے سکیں۔ تاہم اس بارے زیادہ لوگ سامنے نہیں آئے کہ اس طرح یہ ثابت ہو جاتا کہ وہ افراد بھی اس غیر قانونی مجمع میں شریک تھے۔ اس کے علاوہ بہت سارے مقتولین کے قریبی رشتہ دار اس شہر سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ جب کمیٹی کے اراکین سے بات کی گئی تو ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔

چونکہ مجمعے کے حجم، چلائی گئی گولیوں کی تعداد اور اس کے دورانیے کے بارے سرکاری اندازے غلط ہو سکتے تھے، انڈین نیشنل کانگریس نے اپنی طرف سے ایک اور تحقیقاتی کمیٹی بنائی جس کے نتائج سرکاری نتائج سے بہت مختلف نکلے۔ کانگریس کی کمیٹی نے زخمیوں کی تعداد 1٬500 سے زیادہ اور ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ 1٬000 لگایا۔ حکومت نے اس قتلِ عام کی خبر چھپانے کی کوشش کی مگر پورے ہندوستان میں یہ خبر پھیل گئی اور عوام مشتعل ہو گئے۔ برطانیہ میں اس قتلِ عام کی معلومات دسمبر 1919ء میں جا کر پہنچیں۔

اس وقت کے سیکریٹری آف سٹیٹ فار وار ونسٹن چرچل اور سابقہ وزیرِ اعظم ایچ ایچ ایسکوتھ نے کھلے عام اس حملے کی مذمت کی۔ چرچل نے اسے ‘خوفناک‘ جبکہ ایسکوتھ نے ‘اپنی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک‘ کہا۔ 8 جولائی 1920 کو ایوانِ نمائندگان میں چرچل نے بتایا، ‘ہجوم نہتا تھا اور ان کے پاس شاید لاٹھیاں رہی ہوں۔ انہوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا تھا۔۔۔ جب ان پر گولیاں چلائی گئیں تو لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی۔ ٹرافالگر سکوئیر سے بھی چھوٹی جگہ پر اتنا بڑا مجمع تھا اور گولیاں ہجوم کے وسط پر چلائی گئیں۔ انہو ں نے جب فرار کی کوشش کی تو ان کے پاس باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ لوگ اتنے قریب قریب تھے کہ شاید ایک گولی تین یا چار انسانوں کے پار ہوجاتی۔ لوگ دیوانوں کی مانند جان بچانے کو ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ پھر اطراف پر بھی گولیاں برسائی گئیں۔ یہ سارا واقعہ آٹھ یا دس منٹ بعد تب جا کر رکا جب گولیاں ختم ہونے والی تھیں۔‘ چرچل کی تقریر کے بعد ہونے و الی رائے شماری میں پارلیمان کے اراکین نے جنرل ڈائر کے خلاف 247 اور حق میں 37 ووٹ ڈالے۔

رابندر سنگھ ٹیگور کو 22 مئی 1919 کو اس قتلِ عام کی اطلاع ملی۔ انہوں نے کلکتہ میں احتجاجی مظاہرے کی کوشش کی اور آخرکار بطور احتجاج ‘سر‘ کا خطاب واپس کر دیا۔ 30 مئی 1919 کو وائسرائے لارڈ چیلمس فورڈ کو لکھے ہوئے خط میں ٹیگور نے لکھا: ‘میری خواہش ہے کہ میں تمام تر اعزازات کو چھوڑ کر اپنے ہم قومو ں کے ساتھ کھڑا ہوں جو اپنی نام نہاد ناقدری کی وجہ سے تکلیفیں سہتے اور انسان کہلانے سے محروم ہیں۔‘

گپتا کے مطابق ٹیگور کا یہ خط ‘تاریخی‘ اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے لکھا: ‘ٹیگور نے اپنا ‘سر‘ کا خطاب واپس کر دیا اور برطانوی حکومت کی جانب سے پنجاب کے لوگوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک پر اس طرح اپنے احتجاج کا اظہار کیا۔ ٹیگور نے وائسرائے کے نام لکھے خط میں واضح کیا کہ کس طرح بدامنی کے خلاف کئے جانے والے مظاہرےکے شرکاء کے خلاف برطانوی حکومت نے غیر انسانی رویہ اپناتے ہوئے جس طرح قتلِ عام روا رکھا، اس سے ہندوستانی عوام کی جان و مال کی ناقدری واضح ہے۔ ٹیگور نے یہ بھی لکھا کہ اپنے ہم قوم افراد کی بے بسی پر اظہارِ یکجہتی کی خاطر اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ تمام برطانوی اعزازات واپس کر دے۔

کلوک کے مطابق سرکاری طور پر اگرچہ اس واقعے کی مذمت کی گئی مگر بہت سارے برطانویوں نے ڈائر کو‘برطانوی قانون کا تحفظ کرنے والا  ہیرو قرار دیا‘۔

 

(بشکریہ وکی پیڈیا)

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (2 )