چند معروف سازشی نظریات۔ لوگ ان سازشی نظریات پر یقین کیوں رکھتے ہیں

لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں ۔ ماہرین کا خیال ہے کہ لوگ خوف ، عجنبیت، باہمی اعتماد کی کمی اور عدم تحفظ کے احساس کے باعث سازشی نظریات پر یقین رکھتے ہیں۔ اگرچہ شواہد اور ٹھوس استدلال کے ذریعے سازشی نظریات کوآسانی سے  غلط ثابت کیا جا سکتا ہے  مگر پھر بھی افراد کی ایک کثیر تعداد درج ذیل مضحکہ خیز خیالات پر یقین رکھتی ہے

چاند پر اترنے کا کیا گیا دعوٰی محض ایک دھوکہ ہے جو حکومتی ملی بھگت سے تیار کیا گیا ۔

 خلائی مخلوق یو ایف او کے ذریعے زمین پر پہنچ چکی ہے مگر خفیہ ایجنسیوں نے اس کی موجودگی کو چھپا رکھا ہے ۔

 جدید ادویات زہریلی اور سخت نقصان دہ ہیں جبکہ ان کی متبادل ادویات معجزانہ رنگ میں شفایابی کی خصوصیات رکھتی ہیں لیکن لالچی ادویات ساز کمپنیاں سازش کے تحت اس حقیقت کو چھپاتی ہیں ۔

 ایک خفیہ تنظیم نے عالمی تباہی کی غرض سے ایڈز کا وائرس لیبارٹری میں تیار کیا تھا اور اب اس سے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کا کام لیا جا رہا ہے ۔

 گیارہ ستمبر کے حملے اور دیگر دہشت گردی کے حملے عوامی حکومتیں خود کرواتی ہیں تاکہ جنگ کو ہوا دی جاتی سکے ۔

 نیو ورلڈ آرڈر کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے اشرافیہ تمام حکومتوں کو ظالمانہ نظام کے لئے کنٹرول کرتی ہے ۔

 جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں انتہائی نقصان دہ ہیں اور اس حقیقت کو باقاعدہ ایک سازش کے تحت چھپا یا جاتا ہے ۔

 خفیہ سرکاری اداروں کے ذریعے دماغوں پر قابو پانے کے لئے فلورائیڈ کو پینے کے پانی میں شامل کیا جاتا ہے ۔

    مفت توانائی پیدا کرنے والے آلات کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ بغیر کسی ذریعے کے توانائی پیدا کرتی ہیں لیکن توانائی کی کمپنیوں میں شامل سازشی عناصر ان کے وسیع پیمانے پر استعمال کو روکنے کے لئے ان آلات کو چھپاتے ہیں ۔

سازشی نظریات پر رکھنے کی وجوہات

سازشی نظریات پر یقین رکھنے کی بنیادی وجہ بے بسی کا احساس ہے ۔ دائمی بیماریاں، غیر فعال خاندان ، نشے کی لت ، ناکام تعلقات یہ سب انسان کو بے بس محسوس کروانے میں معاون ہوتے ہیں ۔ ایسی صورتحال سے نمٹنے کیلئے بہت سے لوگ اپنی بے بسی کا الزام سازشوں کو دیتے ہیں ۔ سازشوں کو بے نقاب کرنے کا عمل انہیں جذباتی سہارا فراہم کرتا ہے ۔

اپنے حالات کی مشکلات کا مقابلہ نہ کر سکنے والے لوگوں کے لئے یہ خیال بہت تسکین بخش ہے کہ معاشرے میں پیدا ہونے والے انتشار کی ذمہ دار دراصل  اشرافیہ ہے جو خفیہ طاقتیں رکھتی ہے اور ہمارے حالات کو کنٹرول کرتی ہے ۔

سنگین بیماریوں کی صورت میں جب علاج  میں بہت وقت درکار ہو یا جدید ادویات کے ذریعے علاج ممکن نہ ہو پائے تو بہت سے لوگ سازشی نظریات میں پناہ لیتے ہیں ۔ ان کے لئے اس بات پر یقین کرنا ایک تسلی بخش امر ہوتا ہے کہ ایک معجزانہ علاج موجود ہے  لیکن اسے صرف دوا ساز کمپنیوں نے ذاتی مفاد کے لئے سازش کے ذریعے اس کی پہنچ سے دور رکھا  ہے ۔

اس حقیقت کو قبول کرنے کے بجائے کہ کچھ بیماریوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا  یہ ماننا زیادہ تسلی بخش ہے کہ واٹر فلورائیڈیشن ، جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فصلیں،  مختلف دوائیاں یا بجلی کے تاروں اور مختلف کیمیکل ان کے ذمہ دار ہیں۔

سازشی نظریات کامیاب کیوں نہیں ہوتے

ایسی عالمی سازشیں جن میں مختلف مذاہب، قوموں یا ثقافتوں کے لوگ شامل ہوں ان کا کامیاب ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اکثر بڑی اور کامیاب سازشوں کے پیچھے مختصر جتھا ہوتا ہے ۔ لیکن آخر کار وہ بھی ناکام ہو جاتے ہیں   مثلا ڈاکٹروں کے درمیان ایک عالمی سازش کو برقرار رکھنے کے لئے  مختلف ملکوں، مذاہب اور ثقافتوں کے حامل لاکھوں ڈاکٹروں کو ایک مربوط کور اپ میں  شرکت کے لئے قائل کرنا ایک مشکل امر ہے ۔

لوگ فطری طور پر آزادانہ سوچ رکھتے ہیں ۔ ایک عالمی سازش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب لاکھوں لوگوں کوبالکل ایک جیسی سوچ کا حامل بنا دیا جائے اور پھر ان سے جو کہا جائے وہ کرنے کو تیار ہوں ۔

ملازمت پیشہ لوگوں کو بھی جب بہت زیادہ روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑے تو وہ ملازمت چھوڑ دیتے ہیں اور اپنا کاروبار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اس سطح پر کسی سازش کو کامیاب بنانے کے لئے جس سطح کی آمریت کی ضرورت ہوتی ہے اس کے باعث ایک پرتشدد انقلاب جنم لیتا ہے اور یہ داخلی انتشار سازش کو جلد ناکامی سے دوچار کر دیتا ہے ۔

ہم سب انسان ہیں ڈاکٹر بھی انسان ہیں اور وہ بھی عام انسانوں کی طرح کبھی بیمار پڑ سکتے ہیں اس لئے ان کے پاس ایک مضبوط ذاتی ترغیب ہے کہ وہ کامیاب ہونے والے طبی علاج کی حوصلہ شکنی نہ کریں ۔ اسی طرح سرکاری ملازمین بھی اور ان کے بچے بھی اسی ماحول اور معاشرے میں رہتے ہیں اس لئے ان کے پاس بھی ایک مضبوط  ذاتی ترغیب ہے کہ وہ پانی یا ارد گرد کے ماحول کو زہر آلود نہ کریں ۔

سازشی نظریات کے درست یا غلط ہونے پر بحث کرنا ایک لایعنی عمل ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان نظریات پر یقین کرنے کی بنیادی وجوہات کا جائزہ لیا جائے ،

عمومی تعلیمی سطح ، کیرئیرکے امکانات ، مسائل کے حل کے لئے کمیونٹی کی شمولیت اور خاندانی تعلقات کو بہتر بنا کر ایسے نظریات کے فروغ کو روکا جا سکتا ہے اور لوگوں  کو یہ باور کروایا جا سکتا ہے کہ دنیا اتنی بری نہیں جیسا کہ وہ تصور کئے بیٹھے ہیں ۔ اس دنیا میں باشعور
ایماندار اور مہذب لوگ بستے ہیں جو برائی کی طاقتوں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔

 

 

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )