تخلیقی اندازِ فکر – خیالات کو بہتر طریقے سے سمجھنا کیوں ضروری ہے؟

تخلیقی اندازِ فکر – خیالات کو بہتر طریقے سے سمجھنا کیوں ضروری ہے؟
اپنے بچوں کو چیلنج فراہم کریں تا کہ ان کے ذہنوں کو خاص رنگ میں پروان چڑھایا جا سکے

ایک شخص نے اپنے چھوٹے سے کاروبار کے لیے ایک ساہوکار سے بھاری سُود پر رقم اُدھار لی ۔  ساہوکار بھیانک شکل کا بوڑھا شخص تھا اور بہت بد نیت  اور دھوکہ باز  تھا ۔

کاروباری شخص کی ایک خوبصورت بیٹی تھی جس سے وہ ساہوکار شادی کرنا چاہتا تھا ۔
اُس نے مقروض شخص کو پیشکش کی کہ اگر وہ اپنی بیٹی کی شادی اُس سے کر دے تو وہ اُس کا سارا قرض معاف کر دے گا کاروباری شخص نے اِس پیشکش پر نہایت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ٹھکرا دیا ۔
بد نیت ساہوکار نے ایک اور چال چلی اور کاروباری شخص کو پیشکش کی کہ وہ ایک تھیلے  میں دو کنکر ڈالے گا ایک سفید اور ایک کالا  اُس کی بیٹی کو بِنا دیکھے ایک کنکر نکالنا ہو گا اگر کالا پتھر نکل آیا تو وہ تمام قرض معاف کر دے گا   مگر اُسے اپنی بیٹی کی شادی اُس سے کرنا ہو گی اور اگر سفید کنکر نکلا تب بھی وہ اُس کا سارا قرض معاف کر دے گا اور اُس کی بیٹی سے شادی بھی نہیں کرے گا ۔ کاروباری شخص نے اِس پیشکش کو قبول کرر لیا ۔
ساہوکار نے ایک تھیلا لیا اور کاروباری شخص کے گھر کے باغیچے سے دو کنکر چُن کر اُس میں ڈالے ۔  کاروباری شخص کی بیٹی بہت ذہین تھی ۔  اُس نے دیکھا کہ ساہوکار نے دونوں کنکر کالے رنگ کے چُنے اور اُنہیں تھیلے میں ڈال دیا  اِس
.طرح اُس نے اُس نے ساہوکار کی بدنیتی کو بھانپ لیا
یعنی وہ جو بھی کنکر نکالتی وہ کالا ہی ہوتا اور یوں اُسے ہر صورت میں ساہوکار سے شادی کرنا پڑتی ۔  یہاں وہ اپنی ذہانت کو بروئے کار لائی ۔ اُس نے تھیلے سے ایک کنکر نکالا ،  اِس سے پہلے کہ کوئی اِس پتھر کو دیکھ پاتا اُس نے وہ کنکر ہاتھ سے گرا دیا اور بناوٹی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
اوہ ! ”میں بھی کتنی اناڑی ہوں مگر پریشانی کی بات نہیں آپ تھیلے میں دوسرا کنکر دیکھ لیں وہ کس رنگ کا ہے اِس سے یہ پتہ چل جائے گا کہ میں نے کون سا کنکر نکالا تھا“۔
تھیلے میں کالا  کنکر موجود تھا  چونکہ ساہوکار نہیں چاہتا تھا کہ اُس کی دھوکے بازی دوسروں کے سامنے آئے اِس لئے  اُسے ماننا پڑا کہ نکالا گیا کنکر سفید ہی تھا اور اِس طرح اُسے قرض معاف کرنا پڑا ۔
درج بالا کہانی میں اِس لڑکی کے سامنے تین راستے تھے۔
 ١۔تھیلےسے کوٸی بھی پتھر نکالنے سے انکار کر دیتی۔
 ٢۔دونوں کنکر نکال کر  سب کے سامنے ساہوکار کی بدنیتی ۔ظاہرکردیتی ۔
٣   ساہوکار کی بدنیتی جانتے ہوۓ بھی وہ ایک کنکرنکالتی اور اپنے باپ کی خاطر قربانی دے دیتی ۔۔
لیکن اِن تینوں صورتوں میں اُس کے باپ کو یا خود اُسے نقصان اُٹھانا پڑتا لیکن اُس کے طرزِعمل نے ثابت کر دیا کہ مُشکل صورتحال سے نمٹنے کے لئے تخلیقی اندازِ فکر اپنانا کتنا اہم پے.
ایک بہتر سوچنے والا ہی نٸی چیزوں کو بہتر انداز میں سمجھتا ہے نٸی اور بہتر حکمتِ عملی اور منصوبوں کو سامنے لاتا ہے جبکہ روایتی انداز میں سوچنے والا شخص پُرانے اور بعض اوقات ناقابل عمل منصوبوں پر کام کرتا ہے آپ کبھی بھی اچھی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے اگر آپ تخلیقی انداز سے نہ سوچیں۔
بحیثیت والدین یا اساتذہ ہماری ذمہ داری ہے کہ بچوں کو آزاد اور تخلیقی انداز میں سوچنا سکھائیں ۔ اگرچہ سکول میں بچوں کو یہ تربیت دی جانی چاہیئے مگر اضافی نمبروں کے حصول سلیبس مکمل کرنے جیسی ترجیحات اِس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہیں ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بچوں کو ایک واضح حل سے آگے جا کر سوچنے کا عادی بنایا جائے ۔  تخلیقی اندازِ فکر نہ صرف سکول اور کالج کے زمانے میں بلکہ زندگی کے ہر قدم پر اُن کے کام آئے گا اور جتنا جلدی ہم اُن کو اِس کا عادی بنائیں گے وہ تخلیقی اندازِ فکر میں اُتنی ہی زیادہ مہارت پیدا کریں گے اور اپنے پیشہ ورانہ اور ذاتی اہداف کو تیزی سے اور آسانی سے حاصل کریں گے۔
اپنے بچوں کو چیلنج فراہم کریں اگر کسی مسئلے کو حل کرنے کیلئے وہ کوئی آسان راستہ اختیار کرنے کی کوشش کریں تو اُنہیں اِس سے روکیں ۔  بچے حیرت انگیز طور پر مسائل کا حل تلاش کر لیتے ہیں آپ حیران ہوں گے کہ وہ بڑوں کے مقابل کتنا مختلف انداز میں مسائل اور چیلنجز کو دیکھتے ہیں اور اُن کا حل تلاش کرتے ہیں آپ کو بس اُن سے پوچھنے کی ضرورت ہے۔
ابتدائی دور سے ہی بچوں میں تخلیقی سوچ کو پروان چڑھانے کا عمل اُن کے ذہنوں کو خاص رنگ میں پروان چڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے عصبی رابطے پیدا ہوتے ہیں اور وہ تصورات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (1 )