ایک نوعمر لڑکی کی ڈاٸری. A teenage girl’s diary

ایک نوعمر لڑکی کی ڈاٸری.            A teenage girl’s diary

این فرینک ١٩٢٩ میں جرمنی میں پیدا ہوٸیں۔ وہ ھولوکاسٹ کے متاثرین میں شامل تھیں۔ اس کی وفات کے بعد اس کی لکھی گٸی ڈاٸری ”ایک نوعمر لڑکی کی ڈاٸری“ کےنام سے شاٸع ہوٸی اور بہت مشہور ہوٸی ۔اس ڈاٸری میں اس نے جنگ عظیم دوم میں جرمنی کے ندرلینڈ پر قبضے کے دوران ١٩٤٢ سے ١٩٤٤ تک اپنی زندگی کا احوال بیان کیا ہے۔ اس ڈاٸری کا شمار دنیا کی معروف ترین کتابوں میں ھوتا ہے ۔اوراس پر کٸی کتابیں اور فلمیں بھی بن چکی ہیں۔

جرمنی میں نازیوں کے مظالم سے بچنے کے لیے یہ خاندان جس میں این فرینک کے والدین اور بہن مارگوٹ شامل تھیں ندرلینڈ منتقل ہو گیامگر ١٩٤٠ میں جرمنی کے ندرلینڈ پر قبضے کے بعد اس خاندان نے اپنی شہریت کھو دی ۔١٩٤٢ میں یہودی آبادی پر مظالم بڑھے تو یہ خاندان ایمسٹریڈم میں محسور ہو گیا ۔جرمن حکام اور ان کے ڈچ اتحادیوں نے یہودیوں کو تمام ہالینڈ سے نکال کر ویسٹر بورک میں اکٹھا کرنا شروع کر دیا ۔یہ جرمن سرحد کے قریب ایک عارضی کیمپ تھا ۔

این فرینک کے والد اوٹو فرینک نے جرمن فوجیوں کے ھاتھوں گرفتاری سے بچنے کے لیے اپنے دوستوں کی مدد سے اپنے کاروباری دفتر کے عقبی حصے میں دو کمرے تیار کیے اور اپنے خاندان کے لیے کپڑے اور خوراک بھی   خفیہ طور پر وھاں پہنچاتے رہے ۔۔ جولاٸی کے پہلے ہفتے میں یہ خاندان اس خفیہ پناہ گاہ میں منتقل ہو گیا جہاں بعد میں مزید چار یہودیوں نے بھی خفیہ طور پر پناہ حاصل کی ۔این نے اپنی ڈاٸری میں اس جگہ کا ذکر خفیہ انیکسی کے طور پر کیا ہے ۔یہ تمام افراد اس خفیہ انیکسی میں دو سال تک رہے ۔اور ایک مرتبہ بھی عمارت کے تاریک اور نم حصے سے باہر قدم نہیں رکھا۔این فرینک اپنے شب وروز کو اپنی ڈاٸری میں محفوظ کرتی رہیں ۔اپنے خوف , امیدیں اور تجربے رقم کرتی رہیں۔

اس خفیہ انیکسی کے داخلی راستے کو کتابوں کی ایک الماری کی مدد سے چھپایا گیا تھا ۔ان لوگوں کو یہاں دن کے وقت مکمل خاموشی اختیار کرنا ہوتی تھی تاکہ کمپنی کے ملازمین کو ان کی موجودگی کا علم نہ ہو سکے یہاں تک کہ چلتے وقت پاٶں میں جوتا بھی نہیں پہنتے تھے ۔ہفتے کے آخر میں ان کے مددگار انہیں روزمرّہ کے استعمال اور کھانے پینے کی اشیاء لا کر دیتے۔

اگست ١٩٤٤ میں جرمن خفیہ پولیس کے افسران نے کسی نامعلوم شخص کی مخبری کے باعث ان افراد کو خفیہ انیکسی سے گرفتار کیا اور شمال مشرقی ندرلینڈ میں حراستی کیمپ ویسٹربرگ بھیج دیا گیا ۔٣ ستمبر ١٩٤٤ میں انہیں پولینڈ کے آشوٹز حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا ۔ آشوٹز پہنچنے پر مرد اور خواتین الگ ہو گیۓ اس طرح یہ آخری  موقع تھا جب این فرینک کے والد نے اپنی بیوی اور بیٹیوں کو دیکھا ۔

بھاری پتھروں اور گھاس کی چٹانوں پر کٸی ماہ مشقت کے بعد این فرینک اور مارگوٹ کو پھر سے منتقل کر دیا گیا ۔ وہ موسمِ سرما کے دوران جرمنی میں برگن بیلس حراستی کیمپ میں پہنچیں ۔یہاں صفاٸی ستھراٸی کا کوٸی انتظام نہیں تھا اور بیماری پھیلی ہوٸی تھی ۔ان کی والدہ کو ان کے ساتھ آنے کی اجازت نہ ملی اور وہ بیمار ہو کر جنوری ١٩٤٥ میں آشوٹز میں ہی انتقال کر گیں۔

این اور اس کی بہن کی وفات بھی فروری یا مارچ ١٩٤٥ میں ٹاٸفس کے باعث ہوٸی ۔دونوں بہنوں کی وفات کے چند ہفتوں کے بعد ہی برطانوی فوجیوں نے اس حراستی کیمپ کو آزاد کروا لیا یوں این اپنی آزادی سے چند ہفتوں کے فاصلے پر پہنچ کر انتقال کر گٸی۔

جنگ کے خاتمے پر اس کنبے کا واحد زندہ بچ جانے والا شخص این کے والد اوٹو تھے ۔جب وہ اپنے گھر والوں کی تلاش کرتے ہوۓ واپس اپنے گھر پہنچے تو ان کی ملاقات برگن بیلس کیمپ میں این اور مارگوٹ کے  ساتھ رہنے والی دو لڑکیوں سے ہوٸی ۔ان کی زبانی انہیں اپنی بیٹیوں کی وفات کا علم ہوا ۔اینفرینک کی ڈاٸری ان کی ایک مددگار کو ان کے گھر کی تلاشی کے دوران ملی جسے اس نے سنبھال کر رکھا اور این کے والد کی واپسی پر انہیں یہ امانت  پہنچاٸی ۔اس کے والد نے جب یہ ڈاٸری پڑھی تووہ سخت حیرت ذدہ ھوۓ ۔اوٹو نے اس ڈاٸری  کی ادبی اور تاریخی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی اشاعت کی کوشش شروع کر دی ۔یوں ١٩٤٧ میں اس ڈاٸری کی اشاعت ہوٸی ۔اس کے اصل ڈچ ورژن سے ترجمہ کیا گیا   اور سب سے پہلے انگریزی زبان میں انگلستان میں ”ایک نوجوان لڑکی کی ڈاٸری“ کے نام سے شاٸع ہوٸی۔اس کے بعد سے اب تک اس کا ساٹھ  سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے ۔

اپنی ڈاٸری میں جہاں وہ اپنی مایوسی اور اداسی بھری زندگی کا دکھ بیان کرتی ہیں وہیں وہ انسانیت پر اپنا اعتماد ظاھر کرتے ہوۓ ہر حال میں پر امید دکھاٸی دیتی ہیں ۔تمام تر مایوسیوں اور نفرتوں سے گزرنے کے باوجود این کی

!ڈاٸری امید اور محبت کی کہانی ہے ۔وہ لکھتی ہیں

ہر چیز کے باوجود مجھے یقین ہے کہ لوگ دل کے اچھے ہیں

انہوں نے١٥ جولاٸی١٩٤٤میں لکھاکہ,میں  دیکھ رہی ہوں کہ دنیا آہستہ آہستہ ایک بیابان میں  تبدیل ہوتی جا رہی ہے ۔گرج سناٸی دیتی ہے جو ایک دن ہمیں بھی تباہ کر دے گی ۔میں لاکھوں لوگوں کے دکھوں کو محسوس کرتی ہوں پھر بھی جب میں آسمان کی طرف دیکھتی ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ بہتر ہو جاۓ گا ۔یہ ظلم بھی ختم ہو جاۓ گا ، امن اور سکون ایک بار پھر لوٹ آۓ گا ۔

انسان کی عظمت دولت یا طاقت میں نہیں بلکہ کردار اور نیکی میں ہے ۔ لوگ صرف لوگ ہوتے ہیں ہر ایک میں خامیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں ، لیکن ہم سب ایک بنیادی نیکی کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔

کسی شخص کو صحیح معنوں میں جاننے کا واحد طریقہ اس سے بحث کرنا ہے   کیونکہ جب وہ اپنی بحث کے  عروج پر ہوتا ہےتو وہ اپنے کردار کو ظاہر کر دیتا ہے ۔

ڈاٸری لکھنا میرے لیۓ ایک عجیب  تجربہ ہے نہ صرف  اس لیۓ کہ میں نے پہلے کبھی کچھ نہیں لکھا بلکہ اس لیۓ بھی کے بعد میں نہ مجھے اور نہ کسی اور کو تیرہ سالہ لڑکی کے جذبات کی عکاسی میں دلچسپی ہو گی مگر کوٸی بات نہیں ، میں پھر بھی لکھنا چاہتی ہوں۔

” والد صاحب کےالفاظ کتنے سچ تھےجب انہوں نےکہا ” سبھی بچوں کو اپنی پرورش کا خیال خود ہی رکھنا ہے ، والدین صرف اچھا مشورہ دے سکتے ہیں یا نصیحت کر سکتے ہیں کسی شخص کے کردار کی حتمی شکل اس کے اپنے ہی ھاتھ میں ہے ۔

کاہلی پرکشش دکھاٸی دیتی ہے مگر کام سے اطمنان حاصل  ہوتا ہے۔

کیا کوٸی یہودی یا غیر یہودی یہ سمجھے گا کہ میں محض ایک چھوٹی سی لڑکی ہوں جسے آزادانہ گھومنے پھرنے کی ضرورت ہے۔

اگرچہ این فرینک نے ایک مختصر زندگی گزاری مگر وہ بہت سے لوگوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوٸیں ۔این کی ڈاٸری میں اگرچہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جیسے بہن سے لڑاٸی، ماں کی شکاٸیتیں ،باپ کی شفقت ،اپنے معصوم خواب اور امیدیں اس کے علاوہ اپنے ڈر اور خوف مگر ایک تاریخ دان کا کہنا ہے کہ یہ ڈاٸری نہیں بلکہ ایک بچی کی آواز میں ظلم کے خلاف سب سے بڑی گواہی ہے ،نیورم  برگ میں پیش کی گٸ سب گواہیوں سے زیادہ پر اثر اور طاقت ور۔

یہ ڈاٸری ینسکو کے مطابق ایک عالمی ورثہ ہے اور خصوصی تعلیمی اہمیت کی  حامل ہے

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )