تتلیوں کو اُڑنے دو – جدوجہد ھمیں طاقتور بناتی ھے | Let the butterflies fly – Struggle makes us strong

        تتلیوں کو اُڑنے دو   

 

ایک شخص نے تتلی کا کوکون دیکھا جس میں ایک چھوٹا سا سوراخ ظاہر ھوا تھا ۔وہ قریب بیٹھ کر غور سے اُس تتلی کو اُس ننھے سوراخ سے باہر نکلنے کی جدوجہد کرتے ھوے دیکھتا رھا۔ وہ تتلی ایک جگہ اٹک گئی اور کافی دیر جدوجہد کے بعد کچھ دیر کے لیے بےحس وحرکت ہو کر بیٹھ گئی ۔ یو ں محسوس ھونے لگا کہہ اب وہ مذید زور  لگا نے کی متحمل نہیں ھو سکتی ۔تب اُس شخص نے تتلی کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ۔

وہ ایک قینچی لا یا اور اُس کے ذريعے اُس نے کوکون کو کاٹ دیا ۔اب تتلی آزار تھی ۔مگر ایک حیرت انگیز بات رونما ھوئ۔تتلی کا جسم ُپھو لا ھوا تھا اور پر خشک اور مرجھاے ھوے تھے ۔ وہ شخص اس اُمید پر تتلی کو دیکھ رھا تھا کھ ابھی اس کے َپر کُھل کر پھیل جائیں گے اور اُس کے جسم کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ھو جائیں گے مگر ایساکبھی نہ ھو سکا اور تاعمر وہ تتلی پھولے ھوے جسم اور جھریوں زدہ پروں کے ساتھ رینگتی رھی اور کبھی اُڑنے کے قابل نہ ھوسکی ۔
وہ شخص اپنی رحمدلی اورجلدبازی کے باعث جس حقیقت کونہ سمجھ سکا وہ یہ تھی کہہ کوکون کے چھوٹے سےسوراخ سے  نکلنے کے لیے تتلی جو زور لگاتی ھے اور جو جدوجہد کرتی ھے وہ خدا کی خاص مصلحت کا تقاضا ھےکیونکہ اس زور لگانے کے دوران اُس کے جسم سے وہ مائع اُس کے پَروں کی طرف بہنے لگتا ھے جو اُسے کوکون سے نکلنے کے بعد پھیلنے اور پھر اُڑنےکے لیے طاقت فراہم کرتا ھے ۔
جدوجہد بالکل اِسی طرح ھمیں طاقتور بناتی ھے ۔ اگر ہماری زندگی میں کبھی رُکاوٹیں نہ آئیں تو ہم کبھی پھلانگنے کی طاقت اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتے اور زندگی بھر رینگتے ہی رہتے ہیں ۔
بحیثیت والدین اور اساتذہ ہم ہمیشہ اِس کوشش میں رہتے ہئیں کہہ ہمارے بچے کو کبھی جدوجہد نہ کرنی پڑے اور یہیں ہم سب سے بڑی غلطی کرتے ہیں۔
تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ دُنیا میں کامیاب ترین لوگ وہ ہیں جنہوں نے زیادہ جدوجہد کی ہے۔ نیوروسائنٹسٹ کا یہ کہنا ہے کہ دماغ کی نشوونما کے لیے غلطیاں کرنا ازحد  ضروری ہے ۔کوشش اور جدوجہد ہماری سیکھنے کی صلاحيت میں اضافہ کرتی ہے ۔ یہ ایک معاشرتی المیہ ہے کہ جیسے ہی بچہ کسی نیۓ کام کو کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ہم بحثیت والدین یا اُستاد فوراً اُس کی مدد کے لیۓ کُود پڑتے ہیں ۔ہمارا یہ اقدام صرف اُس وقت مناسب ہو گا جبکہ بچہ اپنی ہر ممکن کوشش کر چُکا ہو ۔
ہم اپنے بچوں یا طلبہ کو اُن کی کم علمی پر شرمندہ کرنے کے عادی ہیں جس سے وہ نہ جاننے کے خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ہمیں چا ہیۓ کہ ہم اُن کو ذہنی آزادی فراہم کریں تاکہ وہ کُھل کر کہہ  سکیں کہ ہم اِس بارے میں جانتے تو نہیں مگر ہم کوشش کریں گے ۔اور یہ آزادانہ کوشش ہی اُن کی بہتر زندگی کی طرف رہنمائی کرے گی ۔
ہر سال ہزاروں بچے جب نئی کلاس میں آتے ہیں تو وہ نئی باتیں سیکھنے کے لیے پُرجوش ہوتے ہیں اور اُن کو جاننے  کے لیے جدوجہد کا مُظاہرہ کرتے ہیں مگر جب وہ اساتذہ کو بورڈ پر تمام سوالات حل کرتا ہوا پاتے ہیں تو وہ اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے بارے میں شش و پنج کا شکار ہو جاتے ہیں اور خود سے سوچنا چھوڑ دیتے ہیں اور صرف نقالی کرنے لگتے ہیں ۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُنہیں بتایا جاۓکہ  وہ وقت  جس میں  کچھ جاننے کے لیۓ تُم خود جدوجہد کرتے ہو اور جواب کے حصول میں کہیں اٹک جاتے ھو مگر زور لگا کر نکلنےمیں کامیاب
 ہوجاتے ھو تو اِس عمل کے دوران تمہارا دماغ مضبوظ ھوتا ہے اور تم بہتر انداز سے سوچنےکے قابل ہو جاتے ھو ۔ تو بہتر ھے کہ اِن ننھی تتلیوں کو خود اُڑنے دو تاکہ اُن کے پَر مظبوط ھوں اور وہ زندگی کے دوش پر اپنے مظبوط پَروں کے سہارے سے اُڑ سکیں۔
CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (2)
  • comment-avatar

    thanks share this experience with her readers.

  • comment-avatar
    raamy 3 years

    Beautiful…

  • Disqus (0 )