ماں باپ اولادکے لئے کتنا بھی اچھا سوچیں زندگی میں اپنی عقل ہی کام آتی ہے

ماں باپ اولادکے لئے کتنا بھی اچھا سوچیں زندگی میں اپنی عقل ہی کام آتی ہے

 

ایک روز سکول میں ایک عجیب واقع رونما ہوا جس نے مجھے بہت سی باتیں سو چنے پر مجبور کردیا

 

میں پانچویں جماعت میں اردو کا پیریڈ لینے گئی ۔ بچیوں سے  میں نے اپنی والدہ  کے بارے میں ایک پیراگراف لکھنے کو کہا ۔ بچوں کو ایسا پیراگراف لکھنے کو کہا جائے تو وہ عموما مذکورہ شخصیت کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔

میرے کہنے پر تمام بچیوں نے پیراگراف تحریر کر نا شروع کر دیا اور کچھ ہی دیر میں سب نے اپنا اپنا پیپر مجھے جمع کروانا شروع کر دیا ۔

پیپر چیک کرتے ہوئے ایک بچی کا پیپر میری نظر کے سامنے آیا جو باقیوں سے یکسر مختلف تھا اور اس میں تحریر کردہ باتوں نے مجھے بہت سی باتیں سوچنے پر مجبور  کر دیا ۔ اس بچی کے تحریر کردہ پیراگراف کا مضمون کچھ اس طرح تھا،

!میری امی

ماں اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے ۔ ماں کی دعا جنت کی ہوا ہوتی ہے ۔ماں کے قدموں تلے جنت ہے ۔ ماں اپنے بچے کو اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتی ہے ۔بچہ بھی چاہتا ہے کہ اس کی ماں اس سے پیار کرے ۔ جہاں تک میری ماں کا تعلق ہے تو میں کہنا چاہوں گی کہ وہ بہت اچھی ہیں ۔

میری امی بہت پیاری ہیں ۔ میری امی کی عمر 36 سال ہے ۔ میری امی کی بہت سی عادتیں بہت اچھی ہیں پر کچھ عادتیں بہت بری ہیں مثلا زیادہ بولنا ،بات بات پر ٹوکنا اور سب کے سامنے میری برائیاں کرنا اور سب سے بڑی بات غلط فیصلے کرنا ہے لیکن پھر بھی میں اپنی امی سے بہت پیار کرتی ہوں ۔

صرف امی ہی میرے کام نہیں کرتیں میں بھی ان کے کام کرتی ہوں ۔ ابھی میرا امی کے بارے میں لکھنے کا دل نہیں چاہ رہا کیونکہ میں صبح امی سے ڈانٹ  کھا کر آئی ہوں ۔

اللہ حافظ!

اس مضمون میں بہت سی باتیں ہیں جو ذہن میں سوالات پیدا کرتی ہیں ۔ اکثر والدین چھوٹی چھوٹی بات پر بچوں کو ڈانٹ دیتے ہیں اور اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ ان کی بات بچوں کے ذہن پر کس طرح اثر انداز ہو سکتی ہے ۔

ایک بچی جس کی عمر صرف دس یا گیارہ سال ہے وہ بھی سمجھتی ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور ماں کی عزت و توقیر واجب ہے ، اس کے باوجود  ماں کی انجانے میں کی گئی باتیں اسے دکھ پہنچا رہی ہیں ۔ اگر ان باتوں کا تجزیہ کیا جائے تو وہ کچھ اس طرح سے ہیں کہ ،

بات بات پر ٹوکنا’

یہ ایسی عادت ہے کہ جس کے باعث بچے بہت سے نئے تجربات سے محروم ہو جاتے ہیں اور سیکھنے کا عمل محدود ہو جاتا ہے ۔ وہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ان میں خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے ، انہیں ہر وقت یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ وہ کچھ غلط کر رہے ہیں ۔ خود اعتمادی کا یہ فقدان ان کا مستقبل تباہ کر سکتا ہے ۔

‘سب کے سامنے میری برائیاں کرنا’

بعض لوگوں میں یہ عادت پائی جاتی ہےکہ اپنے رشتہ داروں یا دوست احباب کے سامنے بچوں کی کمزوریاں یا برائیاں بیان کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے بچوں کی اصلاح کر رہے ہیں ۔ بچے ہوں یا بڑے عزت نفس سب میں پائی جاتی ہے ۔ یوں دوسروں کے سامنے بے عزتی بچیوں کو سدھارتی کم اور انہیں بگاڑتے زیادہ ہے اور بعض اوقات وہ زیادہ بے باک ہو جاتے ہیں ۔ والدین ایسے رویے کو روزمرہ کا معمول سمجھتے ہیں مگر بچے اس رویے کو یاد رکھتے ہیں جیسا کہ اس بچی نے اس رویے پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ۔

‘ سب سے بڑی بات غلط فیصلے کرنا ہے “

والدین بچوں کو نا سمجھ اور نادان سمجھ کر بہت سےفیصلوں کا اختیار صرف اپنے پاس رکھتے ہیں اور ان سے رائے لینا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔

ہمارے معاشرے میں والدین کے مقابل اپنی رائے رکھنا ایک قبیح فعل سمجھا جاتا ہے اور والدین کی پسند و ناپسند پر سر تسلیم خم کرنے ہی کو دنیا اور آخرت میں نجات کا باعث سمجھا جاتا ہے ۔ بچہ ایک مکمل شخصیت رکھنا ہے ۔ دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنا چاہتا ہے مگر ہمارے معاشرے میں ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ بچوں کو کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی آنکھ سے ، یہاں اس بات کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ بچہ سونے کے نوالے کے بجائے چاندی کے نوالے میں خوشی محسوس کرے ۔ اس طرح نہ تو اسے اپنی پسند کا نوالہ ملتا ہے اور نہ ہی زندگی ۔

اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ماں باپ اولاد کے لئے کتنا بھی اچھا سوچ لیں زندگی میں ان کی اپنی عقل سمجھ ہی کام آتی ہے اور ہمارا بچوں کی پرورش کا انداز انہیں اپنی عقل استعمال کرنے کا بہت کم موقع فراہم کرتا ہے ۔

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (1)
  • comment-avatar
    غزالہ 2 years

    دور حاضر کی حقیقت

  • Disqus (0 )