شعور کی طاقت The power of consciousness.

شعور کی طاقت  The power of consciousness.

کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کےجسم کا ہر ایک عضو آپ کی ہڈیوں سے لے کر دل اور دماغ تک آپ کی زندگی کے دوران خود کو مکمل طور پر دوبارہ پیدا کرتا ہے ۔

آپ ہر پندرہ سال بعد ایک بلکل نیا دل پیدا کرتے ہیں ۔ آپ کی ہڈیاں صرف دو سال پرانی ہیں ، آپ کےپھیپھڑے اور جلد دو سےچارہفتوں کے قریب اور آنتیں پچھلے تین دنوں میں اپنے تمام خلیے تبدیل کر چکی ہیں ۔

اگر یہی حقیقت ہے تو صحت کے مساٸل ہفتوں ، مہینوں اور سالوں تک کیوں برقراررہتے ہیں ۔ ہماری صحت عمر کے ساتھ ساتھ بہتر ہونےکی بجاۓ خراب کیوں ہو جاتی ہے ۔

وہ چند خوش قسمت لوگ آخر ایسا کیا کرتے ہیں جو بڑھاپے میں بھی بیماری سے پاک ، لمبی عمر سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور جو کہ ہم میں سےباقی لوگ نہیں کر پاتے۔

بروس ایچ لپٹن ، جو کہ ایک مشہور سیل بیالوجسٹ ہیں ، انہوں نے اپنی کتاب ” بیالوجی آف بیلیف “ میں حیرت انگیز ساٸنسی دریافتوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے جسم کے تمام خلیات ہمارے دماغ کےباٸیو کیمیکل اثرات سےمتاثر ہوتے ہیں ۔

انہوں نے روزمرّہ زندگی کی مثالوں سے یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح ایپی جینیٹکس کی نٸی ساٸنس ذہن اور مادے کے مابین تعلق کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے ہماری ذاتی اور اجتماعی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ ان کےمطابق ہمارے ذہن میں لمہ بہ لمہ اٹھنے والے خیالات ہماری جسمانی اور ذہنی طاقت کو بڑھانے یا کم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں ۔

ڈاکٹر بروس ایچ لپٹن اپنے تجربات کے ساتھ ساتھ دوسرےمعروف ساٸنسدانوں کے تجربات بھی پیش کرتے ہیں ، جو اس میکنزم کو تفصیل سے جانچتے ہیں جن کے ذریعے خلیات معلومات حاصل کرتے ہیں ۔

ان کی تحقیق زندگی کے بارے میں ہماری سوچ کو یکسر تبدیل کر دیتی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ جین یا ڈی این اے ہماری حیاتیات کو کنٹرول نہیں کرتے ، اس کےبجاۓ سیل کو باہر سے آنے والےسگنلزکے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے اوریہ سگنلز ہمارے منفی یا مثبت  خیالات سےنکلنے والی تواناٸی پر مشتمل ہوتے ہیں ۔

کٸی دہاٸیوں سے ساٸنسدانوں کا یہ نظریہ رہا ہے کہ جین ، فکسڈ ، ناقابلِ تغیر اور ہمارے شعوری کنٹرول سےباہر ہیں ۔ تاہم ڈاکٹربروس لپٹن اور دیگرنڈرمحققین نے یہ ثابت کیا ہے کہ ڈی این اے سگنلز کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ایک خلیے کی زندگی بنیادی طور پر جسمانی اور تواناٸی بخش ماحول سے کنٹرول ہوتی ہے جس میں اس کےجینز کی صرف تھوڑی سی شراکت ہوتی ہے ۔ جینز صرف سالماتی بلیوپرنٹ ہوتے ہیں جو خلیوں، ٹشوز اور اعضا کی تعمیر میں استعمال ہوتے ہیں۔ ماحول ایک کنٹریکٹر کے طور پرکام کرتا ہے جو ان جینیاتی بلیو پرنٹ کوپڑھتا ہے اور اس میں شامل ہوتا ہے اور بالآخر خلیے کی زندگی کے کردار کاذمہ دار ہوتا ہے یعنی خلیے کا ماحول اس سے کہیں زیادہ اہم ہے جتنا کہ پہلے سوچا  جاتا تھا  چناچہ خلیے کے ماحول کو تبدیل کر کے اس کی جینیاتی خصوصیات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ چونکہ ہم سیلز یا خلیوں سےسے بنے ہیں اس لیے سادہ الفاظ میں ہم پنے آپ کو تبدیل کریں ۔

یہ بہت اچھی خبر ہے  ، کیونکہ اس کامطلب ہے کہ ہمارے پاس اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی طاقت ہے۔  اس سے یہ معنی بھی اخذ کیے جا سکتے ہیں کہ صرف اس لیے کہ ہمارے والدین یا باپ دادا میں کوٸی خاص بیماری چلی آ رہی ہے تو ضرور ہم بھی اسکا شکار ہوں گے  ، ایک غلط خیال ہے ۔

ہمارا پنی زندگی کے تجربات اور حالات پر اس سے کہیں زیادہ اختیار ہے جو کہ ہم سمجھتے یا محسوس کرتے ہیں ۔

جب ہم خود کوآٸینے میں دیکھتے ہیں تو ہم خود کو ایک واحد ہستی ، ایک انسان کے طور پر دیکھتے ہیں ، لیکن یہ ایک وہم ہے۔

ہمارا جسم پچاس ٹریلین خلیوں سے  بنا ہے اور ہر خلیہ ایک زندہ ہستی ہے۔ یعنی ہماراجسم پچاس ٹریلین خلیوں کی ایک کمیونٹی ہے  اور اس جسم میں خون ہے ۔ ہمارے خلیات جسمانی ماحول کو کنٹرول کرتے ہیں  اور اصل کلچرمیڈیم خون ہے یعنی ماحول خون کو متاثر کر رہا ہے جس کے نتیجےمیں جینیات کوکنٹرول کیا جاتا ہے۔

ہم صرف ماحول کے اثرات پر ردّعمل دکھاتے ہیں ۔ ہم اپنے کلچرمیڈیم یعنی خون کو اپنے شعور کیطاقت سے کنٹرول کرتے ہیں ۔

دماغ ہی وہ کیمسٹ ہے جو ہمارےکلچر میڈیم یعنی خون کی کیمسٹری بنا رہا ہے اور ہمارےجینیات کو کنٹرول کر رہا ہے ۔ دماغ کو کون سا کیمیکل خون میں ڈالنا ہے یہ آپ کے دماغ میں موجود تصویر پر مبنی ہے  ۔ دماغ اس تصویر کو نمبرزمیں تبدیل کر دیتا ہے ۔ یہ نمبرز تصویرمیں رنگ بھرنے والے پینٹ نہیں بلکہ نیوروکیمیکلز ، ہارمونز اور نمو کے عوامل ہیں ۔ لہذا دماغ اس تصویر کو دیکھتا ہے ، اسے اعداد یعنی کیمسٹری میں ترجمہ کرتا ہے اور پھر اس پینٹ کو کلچر میڈیم یعنی خون میں شامل کر دیتا ہے اور پھریہ کلچرمیڈیم کے ذریعے خلیوں میں جاتا ہےاور دماغ میں موجود تصویر کی تکمیل کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر لپٹن بتاتے ہیں کہ جب وہ یہ عجیب وغریب تحقیق کر رہے تھے تو اس دوران وہ میڈیکل کالج میں پڑھاتے تھے ۔ وہ میڈیکل کالج کے طلبا کو یہ تصور سکھا رہے تھے جسے ہم جینیاتی تعین سے تعبیر کرتے ہیں ۔ جینیاتی تعین ایک نہایت آسان عقیدہ ہے جو کہتا ہے کہ جین آپ کی زندگی کے نتاٸج کا تعین اور کنٹرول کرتے ہیں ۔ یعنی ہر انسان کو جین ماں اورباپ سے وراثت میں ملتے ہیں اور یہ آپ کےمستقبل کا خاکہ ترتیب دیتے ہیں ۔لہذا جس قسم کے جینز آپ کو ملے ہیں آپ اسی قسم کی خصوصیات ظاہر کریں گے ۔

اس اصول کے مطابق ہم کس طرح کی زندگی گزارنے جا رہے ہیں یہ سب کچھ پہلے سے ہی ہمارے جینز نے طے کر رکھا ہے اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ تصور بہت بھیانک ہوتا ہے ۔ کیونکہ جب وہ اپنی خاندانی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو انہیں وہاں کینسر ، زیابیطس ، الزاٸمر اور قلبی بیماریاں دکھائی  دیتی ہیں تب وہ سوچتے ہیں ، اُہ میرے خدا ! میرے خاندان کو ایسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور میں بھی چونکہ ان کے جینز کا وصول کنندہ ہوں اس لیے یقیناً مجھے بھی کبھی نہ کبھی ان میں سے کسی بیماری کا سامنا کرنا پڑے گا

لیکن جب آپ کو اس بات کا ادراک ہوجاتا ہے کہ آپ کا شعور ، آپ کا اعصابی نظام اور آپ کا دماغ ہی آپ کی جینیات کی تشکیل کر رہا ہے تو اس کامطلب ہے کہ آپ خو اپنی زندگی اور حالات کے ذمہ دار ہیں نہ کہ صرف وراثت میں ملی جینز ۔

اس صورتِ حال میں آپ پھر سے اپنی زندگی کا جاٸزہ لیتے ہیں کیونکہ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کو اس زندگی کی ذمہ داری دی گٸی ہے اس لیے اس ذمہ داری کو بخوبی نبھاتے ہوۓ آپ کو اپنی زندگی میں صحت اور خوشی لانی ہے  ۔

لہاذا زندگی ایک جدوجہد ہے مگر یہ آپ کے اور ماحول کے درمیان جدوجہد نہیں بلکہ آپ کے اور آپ کے ذہنی پروگرام کے درمیان جدوجہد ہے ۔ جب آپ اپنے ذہنی پروگرام کوبدلتے ہیں تو آپ زیادہ با ختیار ہوجاتےہیں ۔

ڈاکٹر بروس لپٹن کی اس تحقیق کا مطالعہ بہت سے لوگوں کے لیے دلچسپ اور زندگی کی سمت کو تبدیل کرنے کاباعث ہوسکتا ہے۔

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (1)
  • comment-avatar
    AK 3 years

    Very interesting and life changing article

  • Disqus (0 )