ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں There is nothing permanent except change.

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں There is nothing permanent except change.

 

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ۔ یہ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ تبدیلی کے سوا کچھ بھی مستقل نہیں۔

مشہور یونانی فلسفی ہیرا کلائنٹس کا ایک مشہور مقولہ ہے کہ آپ ایک ہی پانی میں دو مرتبہ قدم نہیں رکھ سکتے ۔ یعنی بہتے دریا کے کنارے آپ جب بھی پانی میں قدم رکھیں گے تو پہلا پانی بہاو کے ساتھ دور نکل چکا ہو گا ۔ یہ محاورہ ہم اردو میں اکثر اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا ہے ۔ پانی کا بہاو ہمیشہ سمندر کی جانب ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ اپنا سفر جاری رکھتا ہے ۔

تبدیلی زندگی میں واحد مستقل چیز ہے جس کا تجربہ ہر شخص کرتا ہے مثلا ایک نئی نوکری حاصل کرنا ، شادی کرنا ، کسی نئے ملک میں رہائش اختیار کر لینا یا کسی قریبی عزیز کی موت وغیرہ

ہمارے احساسات،رشتے اور حالات بدل جاتے ہیں اور ہم اس تبدیلی کو اپنی زندگی کا حصہ مان لیتے ہیں خواہ وہ ہمیں پسند ہوں یا نہ ہوں ۔ ہم اس بات کو قبول کر لیتے ہیں کہ زندگی کے ہر گزرتے لمحے میں ہمارے خیالات اور حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں ۔

اس حقیقت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض لوگ زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کو قبول نہیں کرپاتے اور ان کے آگےمزاحمت کرتےہیں ۔

 

تبدیلی کے سوا کچھ بھی مستقل نہیں” کا کیا مطلب ہے؟

اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر چیز بدل رہی ہے مثلا سخت گرمی کے بعد برسات کا موسم یا جاڑے کے بعد پت جھڑ اور پھر بہار کا موسم آتا ہے جب نئے پتے اور رنگ رنگ کے پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں ۔اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ، ٹیکنالوجی ترقی کرتی چلی جاتی ہےجس کے باعث ہماری زندگی بھی تبدیل ہو جاتی ہے ۔آ ہر چیز وقت کے ساتھ ساتھ بدل رہی ہے۔

جب ہم جوان ہوتے ہیں تو ہم توانا محسوس کرتے ہیں نت نئی امنگیں دل میں جنم لیتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ساتھ جب ہم بوڑھے اور کمزور ہو جاتے ہیں تو ہم ک۔زوراور مایوس ہو جاتے ہیں نئی امنگیں جنم نہیں لیتیں اور نہ ہی خوشی کا وہ پہلے جیسا احساس باقی رہتا ہے ۔۔ یہ سب وقت کا کھیل ہے،

 وقت کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے

کبھی کبھی ہم کسی خاص چیز کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ چیز کبھی نہیں بدلے گی، لیکن وقت کے ساتھ ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم غلط تھے۔ صرف مستقل چیز تبدیلی ہے۔ ہماری زندگی تبدیلی کی سب سے شاندار مثال ہے- کچھ ایسے دن آتے ہیں جب ہم خوشی محسوس کرتے ہیں، اور کبھی ہم اداس ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ہم خود کو پرجوش محسوس کرتے ہیں، کبھی کبھی ہم مایوسی محسوس کرتے ہیں؛ کچھ دن امید سے بھرے ہوتے ہیں، لیکن کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جن میں ہم ناامید ہو جاتے ہیں ۔ یہ ایک لامحدود چکر ہے جس پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں ہے کیونکہ تبدیلی ناگزیر ہے۔

 

There is nothing permanent except change

 

ہم “تبدیلی کے سوا کچھ بھی مستقل نہیں” سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

ہم نے دیکھا کہ وقت کے ساتھ ہر چیزیں بدل جاتی ہیں، اور تبدیلی واحد مستقل چیز ہے۔ لیکن اس تصور کو اپنی زندگی میں کیسے لاگو کیا جائے؟ ذیل میں ” تبدیلی کے سوا کچھ بھی مستقل نہیں ” سے حاصل کردہ چار عملی اسباق ہیں جنہیں ہم اپنی زندگی میں استعمال کر سکتے ہیں۔

بعض اوقات ہم کسی شخص یا کسی چیز سے بہت زیادہ جڑ جاتے ہیں جیسا کہ شریک حیات، دوست، ہماری گاڑی یا گھر جس میں ہم رہتے ہیں۔ اور یہی ہمارے دکھ کی وجہ بن جاتا ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ سب کچھ عارضی ہے۔

ہم زندگی کی لذت اور مسرتوں سے وابستہ ہو جاتے ہیں، یہ نہیں سمجھتے کہ وہ بھی عارضی ہیں۔ جب ہم کسی سانحہ کا سامنا کرتے ہیں تو ہمیں اس سے نمٹنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ہم خوشیوں سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔

جب آپ اپنی کار سے بہت زیادہ جڑے ہوتے ہیں، تو آپ ہمیشہ اس کے بارے میں سوچتے ہیں، اس کی وجہ سے فخر محسوس کرتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی اسے چوری کر لے تو آپ کو بے حد دکھ ہوگا۔ جب آپ کسی شخص سے بہت زیادہ منسلک ہوتے ہیں، تو آپ اس کے بغیر اپنی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اگر وہ آپ کو چھوڑ دیتا ہے تو آپ کی زندگی گویا برباد ہو جاتی ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو کسی شخص یا چیز سے پیار نہیں کرنا چاہئے۔ آپ کو پیار کرنا چاہیے، آپ کو پیار ضرور کرنا چاہیے، لیکن پیار اور لگاؤ ​​میں فرق ہے۔ اس لیے ہر چیز سے پیار کرو لیکن کسی چیز سے وابستہ نہ ہو جاؤ کیونکہ تبدیلی کے سوا کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔

. تبدیلی کو قبول کریں۔

تبدیلی کے سوا کچھ بھی مستقل نہیں ہے، لہٰذا تبدیلی کو قبول کرنا چاہئے ۔ میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو تبدیلیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اپنی زندگی اسی طرح گزارنا چاہتے ہیں جیسے کہ وہ گزارتے چلے آ رہے تھے ۔ اگر ان کا ساتھی انہیں چھوڑ دے تو وہ انتہائی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ زندگی میں آنے والی تبدیلی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس طرح وہ زندگی میں مصائب کو دعوت دیتے ہیں ۔ زندگی میں تبدیلی کو قبول کرنا آسان نہیں ہوتا مگر اسے آسان بنایا جا سکتا ہے ۔

مثال کے طور پر، جب کسی شخص کو نوکری سے نکال دیا جاتا ہے، تو وہ کئی دنوں تک اپنے نقصان کا غم کرتا ہے۔ آمدن کا ذریعہ ختم ہونے پر پریشانی کی کیفیت میں مبتلا رہے گا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ اس تبدیلی کو قبول نہیں کر پاتا جو زندگی نے تجویز کی ہے۔ لیکن جیسے ہی وہ تبدیلی کو قبول کرتا ہے، اسے امکانات نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں- اپنا کاروبار شروع کرنے، مصنف بننے جسے دیگر کاموں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے ۔ ہمیں ہر تبدیلی کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے کافی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

. مسائل بھی عارضی ہوتے ہیں۔

چونکہ کچھ بھی مستقل نہیں ہے، اس لیے ہمارے مسائل بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ یہ کسی بھی چیز کے مستقل نہ ہونے کا سب سے بڑا فائدہ ہے- مشکل وقت بھی مستقل نہیں ہوتا۔

میں نے محسوس کیا ہے کہ جب مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو میرے ذہن میں منفی خیالات آتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ مسئلہ ہمیشہ رہے گا، یہ کبھی حل نہیں ہو سکتا، یہ مستقل ہے، میں ختم ہو گیا ہوں یا برباد ہو گیا ہوں۔ جب ہم تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ مصیبت ہمیشہ جاری رہے گی۔ جب ہم کسی رکاوٹ کا سامنا کرتے ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پھنس گئے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ سب ایک دن ختم ہو جائے گا۔

لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے – مسائل اب کوئی مسئلہ نہیں رہتے، اور چیزیں بدل جاتی ہیں۔ ان حالات میں ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ تبدیلی کے علاوہ کوئی چیز مستقل نہیں ۔

. آپ کے پاس محدود وقت ہے۔

یہ سب سے بڑا سبق ہے جو ہم اس اقتباس سے سیکھ سکتے ہیں۔ کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہے، یہاں تک کہ آپ یا میں بھی نہیں۔ ہم سب ایک دن مرنے والے ہیں کیونکہ جس نے جنم لیا ہے وہ مر جائے گا۔ تبدیلی کی طرح موت بھی ناگزیر ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ اپنی زندگی میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ موت کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ موت تبدیلی کی ایک شکل ہے جس کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے۔

 

مختصراً یہ کہ اس دنیا میں آپ کے پاس محدود وقت ہے وہ سب کرنے کے لیے جو آپ کرنا چاہتے ہیں۔ تلاش کریں کہ آپ کیا کرنا پسند کرتے ہیں، آپ کا مقصدکیا ہے ؟ اور اس پر بہادری سے کام کریں کیونکہ آپ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ آخر کار ہم سب مرنے والے ہیں ۔ ہم خالی ہاتھ آئے تھے اور خالی ہاتھ ہی جایئں گے.

اگر آپ وہ نہیں کرپاتے جو آپ ہمیشہ کرنا چاہتے تھے اور بوڑھے ہو جاتے ہیں، تو تصور کریں کہ آپ اس وقت کیسا محسوس کریں گے۔ کیا آپ کو افسوس نہیں ہوگا کہ آپ نے ایسا نہیں کیا؟ ندامت کا یہ احساس تمام احساسات سے بدترین ہے۔ لیکن آپ اس سے بچ سکتے ہیں۔ آپ کے پاس وقت ہے، اس لیے کوشش کریں اور اگر آپ ناکام ہوجاتے ہیں، تو کم از کم آپ مطمئن ہوں گے کہ آپ نے کوشش کی۔

آپ کا وقت محدود ہے، اس لیے اسے کسی اور کی پسند کی زندگی گزارنے میں ضائع نہ کریں

نتیجہ

آئیے اس مضمون میں ہم نے جو کچھ سیکھا ہے اس کا دوبارہ جائزہ لیں۔ ” تبدیلی کے سوا کچھ بھی مستقل نہیں ہے” کا مطلب یہ ہے کہ وقت سب کچھ بدل دیتا ہے، اور ہمارے اردگرد کی چیزیں بدل رہی ہیں- چاہے وہ موسم ہو، ٹیکنالوجی ہو یا ہماری زندگی۔ ہمیں کسی بھی شخص یا چیز سے  اس حد تک منسلک نہیں ہو جانا چاہئے کہ اس کے بغیر ہمیں زندگی بےمعنی دکھائی دینے لگے ورنہ ہم اپنے دکھوں میں اضافہ کریں گے۔

آپ کو وقت پر آنے والی تبدیلی کو قبول کرنا چاہیے کیونکہ تبدیلی اپنے ساتھ نئے مواقع لے کر آتی ہے۔ کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہوتی، یہاں تک کہ آپ کے مسائل بھی نہیں، اور اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ آپ کے پاس وقت محدود ہے اس لیے آپ کو اپنے مقصد پر بہادری سے ڈٹے رہنا چاہیے۔ اور اگر اس دوران آپ کو کسی بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑے ، تو یاد رکھیں کہ تبدیلی کے سوا کچھ بھی مستقل نہیں ہے۔

 

 

 

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )