Climate change can lead to unprecedented catastrophes. موسمیاتی تبدیلیاں بےمثال تباہی کاباعث بن سکتی ہیں
ایڈورڈ آر میرو ایک صحافی تھے اور اپنے وقت کے ایک معروف امریکی نشریاتی ادارے سے منسلک تھے ۔ انہوں نے ١٩٣٩ میں پولینڈ پرجرمنی کے حملے کی خبر کی کوریج کرنے پر اثرارکیا جبکہ انکے اخبار کے مالکان کی ترجیحات کچھ اور تھیں ۔ ان دنوں ہیمبرگ ، پیرس اور لندن میں رقص کے مقابلے جاری تھے اور ان کےنشریاتی ادارے کے مالکان ان مقابلوں کی زیادہ سے زیادہ کوریج چاہتےتھے ۔ ان کا خیال تھا کہ لوگوں کو زیادہسے زیادہ خوش کن خبریں پہنچانی چاہیے ۔
میرو نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور اپنےنماٸیندوں کو جرمن پولش سرحد پر بھیجا تا کہ وہ صورتحال کا جاٸزہ لے سکیں ۔ متعلقہ اخباری نماٸیندے اس وقت سرحد پر پہنچ گیے جبکہ ہٹلر کے ٹینک پولینڈ پر گولہ باری کر رہے تھے ۔ ان کی بروقت رپوٹنگ کی وجہ سے امریکیوں کو جنگ کی صورتحال کا اندازہ ہوا اور یہ صرف اس وجہ سے ممکن ہوا کہ کچھ صحافیوں نے کنوینشن کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ اپنا کام کیا ۔
آج پوری انسانیت حملے کی زد میں ہے اور ہمارے نیوز رومز ڈانس مقابلوں جیسی بے معنی خبروں کو اولیت دے رہے ہیں ۔
فضا کو آلودہ کرتیکاربن ڈاٸی آکساٸیڈ صدیوں سے زمین کا احاطہ کر رہی ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کاباعث بن رہی ہے ۔ ساٸنسدانوں نے پہلے ہی پشین گوٸی کر رکھی ہے کہ بڑہتے درجہ حرارت کے باعث ہونے والیموسمیاتی تبدیلیاں بے مثال تباہی کاباعثبن سکتی ہیں ۔ ٢٠٢٠ میں ہونے والی ریکارڑ گرمی کی لہروں اور طوفانوں نے اس کی تصدیق کر دی ہے ۔ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث مختلف علاقوں میں لگی آگ اور سیلاب خطرے کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔
آج بھی زیادہ تر نیوز چینل اور اخبارات موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق خبروں کی اس طرح کوریج نہیں کر رہے جس طرح کرونا سےمتعلق خبروں کی کی جاتی ہےحالانکہ یہ انسانیت کے لیے کرونا سے کہیں بڑا خطرہ ہے ۔
اقوامِ متحدہ کے موسمیاتی ساٸینس کے مشاورتی ادارے کی جانب سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے زمین پر خطرناک اثرات سے متعلق مسودہ جو کہ فروری ٢٠٢٢ میں شاٸع ہونا تھا اس کے کچھ حصے فرانس پریس کیجانب سے لیک کیے گیے ہیں ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسانی معاشرہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا تو اس کے کیا نتاٸج ہو سکتے ہیں ۔
مسودےمیں کہا گیا ہے کہ زمین کے درجہ حرارت میں پہلے ہی ١.١ ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو چکا ہے ۔ ١.٥ ڈگری تک پہنچنے پر بہت سے انواع کے جانداروں کیزندگی کو شدید خطرات لاحق ہوں گے اور عالمی موسمیاتی تنظیم نے اندازہ لگایا ہے کہ ٢٠٢٦ تک درجہ حرارت یہ حد پار کر لے گا۔
رپورٹ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتاٸج پر قابو پانے کے لیے تیز تر اقدامات کی ضرورت پر زور دیتی ہے اور ایسا نہ کر سکنے کی صورت میں تنبیہ کرتی ھے کہ ہماری آنے والی نسلوں کی زندگی کو شدید مساٸل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے گیے مسودے میں یہ بات واضح کی گٸ ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے تباہ کن اثرات تیز ہو رہے ہیں ۔ ناقابلِ برداشت گرمی ، ماحولیاتی نظام کا خاتمہ ، مختلف انواع کے جانداروں کا ناپید ہونا ، زیادہ بیماریاں اور سمندروں کی بڑہتی سطح کے باعث خطرے سے دوچارشہر اس کی چندمثالیں ہیں ۔
موسمیاتی بحران پہلے ہی زمین کے نظام میں نمایاں تبدیلی لا رہا ہے ۔ ساٸنسدانوں کا خیال ہے کہ ٢ ڈگری تک مزید درجہ حرارت بڑھنے پر گرین لینڈکی برف کا پگھلنا اور مغربی انٹارکٹیکا کی برف کی چادرپگھلنے سے سمندروں کی سطح ١٣ میٹر تک بلند ہو سکتی ہے ۔ساٸبیریا میں وسیع پیمانے پر کاربن سےبھرپور برف کی زیرِ زمین تہہ جسے پرمافراسٹ کہا جاتا ہے پگھل کر اربوں ٹن کاربن فضا میں شامل کر رہا ہے۔
کلاٸمیٹ ایکٹیوسٹ ٹریٹا ٹن برگ کا کہنا ہے کہ اگرچہ آٸی پی سی سی کے مسودے نے اس بات کی تشخیص کی ہے کہ صورتحال بہت تشویشناک ہے اور فوری کارواٸی کی ضرورت ہے مگر ہم اس وقت تک صورتحال کا سامنا نہیں کر سکتے جبتک کہ ہم لوگوں کو سچاٸی بتانے پر تیار نہ ہوں اور حقیقت کا سامنا کرنے کے لیے لوگوں کو تیار نہ کریں۔
اقوامِ متحدہ کی جاٸزہ رپورٹ اس بات پربھی زور دیتی ہے کہ بد ترین اثرات سے بچنے کے لیے اب بھی بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ انفرادی سطح پر اقدامات اہم ہیں لیکن ہر سطح پر تبدیلی درکار ہے خواہ وہ کاروباری ادارے ہوں یاحکومتیں ۔
مینگروو یعنی سمندری جنگلات کی بحالی نہ صرف ساحلی علاقوں کے رھاٸشیوں کو سمندریطوفان سے بچاتی ہے ، جنگلی حیات کا بہترمسکن ثابت ہوتے ہیں بلکہ ماحول میں موجود کاربن کو جذب کر کے ہوا کو صاف کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ۔
دی اینڈیپینڈینٹ کو دیے یے بیان میں آٸی پی سی سی نے کہا ہے کہ رپورٹ ابھی مذید تبدیلیوں سے گزرے گی ۔ حتمی منظور شدہ ورژن فروری ٢٠٢٢ میں جاری کرنے کا منصوبہ ہے ۔