شباب سے پہلے ( حصہ سوم ) | Before Shabab (Part III)

شباب سے پہلے ( حصہ سوم ) | Before Shabab (Part III)
ایک طالب علم کی ڈاٸری
لڈن آ کرباقاعدہ طور پر پھر سے پہلی جماعت میں داخل کیا گیا ۔ یاد رہے اس سے پہلے میں دوسری جماعت میں پڑھا کرتا تھا مگر دوسری جماعت میں بھی ہنوز روزاول است والا حساب تھا اس لیۓ یہاں آ کر ماسٹر صاحب نے کمال شفقت سے ہمارے درجات میں بلندی کی اور دوسری سے پہلی میں بٹھا دیۓ گیۓ ۔ اس ابتذال سے مجھے سخت افسوس ہوا اور میرا احساس خودی بیدار ہو گیا میرے ذہن کے دروازے کھل گیۓ اور میں ہر چیز کو اچھی طرح سمجھنے لگا ۔ مجھے اپنی ذہانت کا احساس ہوا جو اس سے پہلے شرارتوں میں کارفرما تھی ۔ میں نے ایک سال میں اول اور دوئم جماعت پاس کر لی اور تیسرے درجے میں بیٹھ گیا چوتھی جماعت میں میں مانیٹر بنا دیا گیا اور ساتویں جماعت تک یہ ٹر ساتھ رہی۔ چوتھی جماعت میں وظیفے کا امتحان دیا مگر ناکام
رہا ۔
  اب ماحول بہت سازگار تھا ۔ میں نے گردوپیش کا جائزہ لیا تو میں نے محسوس کیا کہ ہمیں(یعنی مجھے اور میرے بڑے بھائی کو ،ہم اکھٹے سکول جاتے اور کھیلتے کودتے تھے) ممتاز حیثیت حاصل ہے ۔ سکول میں لڑکے ہم سے دبتے تھے ماسٹر جی مارتے نہ تھے اور سکول سے باہر دیہاتی لوگ جھک کر سلام کرتے تھے ۔ بہت عرصہ تک یہ معمہ میری سمجھ میں نہ آیااور میں اس عزت اور تکریم کا مطلب نہ سمجھ سکا مگر اس جاہ و ہشم سے کبھی بھی رعونت اور تفاخر کا احساس پیدا نہ ہوا ۔ آخر کار جب شعور کی کچھ منازل طے کر لیں تو ہم پر منکشف ہواکہ ہمارے والد صاحب میاں احمد یار دولتانہ کی جائیداد کے افسر ہیں اور جس جگہ ہم رہتے ہیں وہ اس جائیداد کا صدر مقام ہے اور مدرسہ کے بہت سے اخراجات جائیداد سے پورے ہوتے ہیں۔ مدرسین کی مالی امداد جائیداد کے افسران کرتے ہیں اور اس قصبے کے رہنے والے زیادہ تر جائیداد کے مزارعین ہیں جو افسران مجاز سے خائف رہتے ہیں اس لیۓ حکام بالا کے بچوں کی تکریم ان پر واجب ہے  ۔ اس حاکمانہ ماحول کا صرف اتنا اثر ہوا کہ احساس برتری پیدا ہو گیاجو بچے کی شخصیت بنانے میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے ۔
مجھے معلوم ہوا کہ ہمارا آبائی وطن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ہے ۔ بعد میں ابا جان کے ساتھ میں ایک دفعہ فیض اللہ چک گیا مگر میں نے ہمیشہ لڈن کو ہی اپنا وطن سمجھا اور فیض اللہ چک کے لیۓ وطن کی محبت کبھی بیدار نہ ہو سکی ۔ اب جبکہ ملک تقسیم ہو چکا ہے اصلی وطن بالکل محو ہو چکا ہے اور ضلع ملتان ہی کے ہو رہے ہیں۔
میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ سکول میں ہم جماعت اور دوسرے لڑکے بھی ہماری خاطر داری کرتےتھے مگر  میں چوتھی جماعت میں ہوا تو مجھے سکول کی فضا میں ایک خاص تبدیلی رونما ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے دیکھا کہ سکول میں ایک خاص گروہ پیدا ہو گیا ہے ۔ اس گروہ کا سرغنہ ایک نہایت مفلس و نادار مگر نہایت ذہین اور ہونہار لڑکا تھا  اسے ،نوری، کے نام سے پکارتے تھے ۔ اس گروہ کو ابتدا میں ،بیلی پارٹی، کہتے تھے۔ اس کا منشور تھا اتحاد،ربط اور اتفاق ، مرکزی کردار نوری تھا ۔ نوری کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والا پارٹی سے نکال دیا جاتا اور اس سے مکمل مقاطعہ کر لیا جاتا ۔سکول میں اس سے کوئی لڑکا کلام نہ کرتا ناچار وہ لڑکا اس ناکہ بندی سے گھبرا کر نوری کی طرف رجوع کرتا اور اس سے معافی مانگتا نوری اگر چاہتا تو اسے معاف کر دیتا اور اس کی خلاصی ہوتی ۔
ایک دفعہ مجھے بھی تلخ تجربہ ہوا ۔ دستور تھا کہ اساتذہ کیطرح نوری کو بھی سکول کے اندر یا باہر آتے جاتے ہوۓ سلام کرنا ضروری تھا ایک روز شومئی قسمت میں نوری کو سلام کرنا بھول گیا ۔ دوسرے روز سکول کھلنے پر نوری نے نہ صرف میرا ہی بلکہ بھائی صاحب کے مقاطعہ کا اعلان کر دیا ۔ ایک ہفتہ تک ہمارے ساتھ اچھوتوں کا سا سلوک ہوتا رہا کوئی لڑکا ہم سے بات کرنے کے لیۓ تیار نہ تھا کوئی ہمارے پاس بیٹھنا گوارہ نہ کرتا ۔ سب لڑکے نوری سے بہت زیادہ خائف تھے کیونکہ موردعتاب سے ہمکلام ہونے والا بھی اسی سزا کا مستحق قرار دیا جاتا تھا ۔ اس طرح ایک ہفتہ تک ہملوگ سخت ذہنی اذیت میں مبتلا رہے آخر کار میں نے نوری کی بارگاہ میں حاضر ہو کر نہایت عجزوانکساری سے درخواست کی کہ میرا قصور معاف کیا جاۓاور مقاطعہ کا حکم واپس لیا جاۓ نوری کا مقصد پورا ہو چکا تھا  ۔ وہ ہم پر اپنی اہمیت کا اظہار کرنا چاہتا تھا اس نے کمال بے نیازی سے کہا کہ ،جاؤ تم آج سے بیلی ہو ،۔ تو صاحب اس کے بعد کسی استاد صاحب کو تو سلام کرنے سے چوک جائیں مگر نوری کے سلام میں کبھی کوتاہی نہیں کی ۔
میں نوری کی شخصیت سے ازحد متاثر ہوا ۔ میں اس کرید میں رہتا تھا کہ معلوم کیا جاۓ کہ کون سی چیز لڑکوں کو اس کا گرویدہ کیۓ ہوۓ ہے ۔ بعد میں خود ہی اس نتیجہ پر پہنچا کہ ایک تو نوری بہت زیادہ ذہین تھا دوسرا پڑھائی میں بہت اچھا تھا اور کمزور لڑکوں کی حتی الامکان مدد کرتا تھااور اس میں ایک لیڈر کی تمام صفات موجود تھیں۔ بعد میں جب میں نے مڈل پاس کر لیا تو وہ میرا بہت اچھا دوست بن گیا ۔ وہ مڈل پاس کرنے کے بعد حالات خراب ہونے کے باعث سکول چھوڑنے پر مجبور ہو گیا ۔ اسے پڑھائی مکمل نہ کر سکنے کا بہت رنج تھا وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ اگر میں پڑھ جاتا تو سکول کے باہر بھی لوگوں کو ایسے ہی پیچھے لگا لیا کرتاجیسے سکول میں لڑکوں کو ۔ 
CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )