دیواربرلن کے اس پار

دیواربرلن کے اس پار

مشرقی برلن کو مغربی برلن سے جدا کرنے والی دیوار ، دیوار برلن کہلاتی ہے جس نے ایک ہی دن میں ہزاروں خاندانوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ۔ ہزاروں لوگوں نے مشرقی برلن سے فرار ہو کر مغربی برلن میں داخلے کی کوشش کی ، ان میں سے کچھ تو اپنی کوششوں میں کامیاب ہو گئےمگر بہت سے لوگ اس فرار کے دوران جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
مشرقی برلن پر سوویت نمائندوں کا کنٹرول تھا جو کہ وہاں کمیونسٹ نظام رائج کر رہے تھے ۔ یہاں زندگی بہت مشکل تھی کیونکہ یہاں کی زیادہ تر آبادی پرتشدد رویہ رکھتی تھی اور جواب میں حکومت کا رویہ بھی ان سے نہایت بد تر تھا ۔
یہ دیوار دراصل مشرقی برلن نے ہی تعمیر کی تھی ۔ ان کے خیال میں مغربی برلن کے لوگ فاشسٹ تھے اور وہ انہیں مشرقی برلن میں داخلے ہونے سے روکنے اور اپنے طرز زندگی میں مداخلت کرنے سے باز رکھنا چاہتے تھے ۔
دیوار کے دونوں جانب موجود ہزاروں خاندان ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ۔ مشرقی برلن کے بہت سے لوگ فرار کے نت نئے راستے تلاش کرتے رہتے تھے ۔ کبھی دیوار پر لگی باڑ کو پھلانگتے تو کبھی دیوار کے نیچے سرنگ کھود کر دوسری جانب نکل جاتے ۔
دیوار کے نیچے  سرنگیں  کھودنا فرار کے لئے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا راستہ تھا ۔ فرار کی ان کوششوں میں کئی تو کامیابی سے دوچار ہوئیں مگر بہت سے لوگ ناکام ہوئے اور پکڑے گئے ۔
ایسی ہی ایک کہانی سیگ فرائیڈ  کی ہے جو اپنی بیوی اور بچے کو مغربی جرمنی لانے کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا تھا ۔
دیوار کی تعمیر کے بعد سیگ فرائیڈ اور اس کی بیوی بہت سے تقسیم شدہ خاندانوں کی طرح دیوار پر بنائے گئے کراسنگ پوائینٹ پر ملتے رہے ۔ ایسی ہی ایک ملاقات کے دوران اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو اسی طرح کی صورتحال سے دوچار تھا ۔ اس نے اسے ایک گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی جو دیوار کے نیچے سرنگ کھودنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تاکہ اپنے خاندان کو سرحد کے اس پار لا سکیں ۔
بدقسمتی سے یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا۔ اس کی وجہ ایک خاتون تھی جس نے ان لوگوں کی مدد حاصل کر کے سرحد پار کی اور مشرقی برلن میں داخل ہوئی ۔ اس خاتون نے اپنے بھائی کو ان لوگوں کے منصوبے سے آگاہ کیا ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کابھائی جرمن پولیس کا مخبر ہے ۔ چنانچہ جیسے ہی یہ لوگ سرنگ کی مدد سے مشرقی برلن میں موجود ایک تہہ خانے میں داخل ہوئے پولیس نے ان پر گولیوں کی بچھاڑ کر دی جس میں سیگ فرائیڈ شدید زخمی ہوا ۔ پولیس نے اسے فوری طور پر ہسپتال پہنچانے کے بجائے اس سے مزید تفتیش جاری رکھی ۔ بعد میں جب اسے ہسپتال پہنچایا گیا تو وہ جانبر نہ ہو سکا ۔ اس طرح بدقسمتی سے یہ خاندان کبھی اکٹھا نہ ہو پایا ۔
یہ صرف ایک خاندان کی کہا نی نہیں ایسے لاتعداد خاندان تھے جو اس دیوار کے باعث تقسیم ہوئے اور دوبارہ کبھی اپنے پیاروں کی شکل نہ دیکھ سکے ۔
9 نومبر 1989 میں سرد جنگ کے خاتمے پر کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ نے مشرقی یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات میں تبدیلی کا اعلان کیا ۔ اس طرح برلن کے مغربی اور مشرقی حصے کو تقسیم کرنے والی اس دیوار کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ۔
مغربی اور مشرقی برلن سے ہزاروں لوگ ، گیٹ کھولو، کے نعرے لگاتے ہوئے سرحدی چوکیوں سے گزرے ۔ ہفتے کے آخر میں ہزاروں لوگوں نے گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہو کر جشن منایا ۔ لوگوں نے ہتھوڑوں بلڈوزروں کی مدد سے اس دیوار کو پاش پاش کر ڈالا ۔
دیوار برلن گر گئی اور1945 کے بعد پہلی بار برلن پھر سے متحد ہو گیا ۔ دیوار برلن سے جڑی کہانیاں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ لوگوں کوزیادہ دیر تک ایک پنجرے میں بند نہیں کیا جا سکتا اگر ایسا ہو تو وہ مزاحمت ، بغاوت اور جدوجہد کریں گے ۔ یہ دیوار ہمیں یاد دلاتی ہے کہ آزادی کی راہ میں حائل ہونے والی دیواروں کی قسمت میں بالآخر گرنا ہی ہے ۔ دیوار برلن آزادی کے لئے انسانی جدوجہد کی زندہ مثال ہے ۔

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (5)
  • comment-avatar
    Erum 2 years

    Mind blowing 

  • comment-avatar
    Mrs Sajida Abbas 2 years

    Nice

  • comment-avatar
    Asm 2 years

    No doubt about it .

  • comment-avatar
    Bushra Khan 2 years

    Very well-written article. Keep up the great work.

  • comment-avatar
    Nasir 2 years

    Very informative article.

  • Disqus (0 )