…وہ بچے جو ریاضی میں مشکل محسوس کرتے ہیں …children who find math difficult

کچھ بچے ریاضی کے سوالات حل کرنے میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ گھر والوں کے خیال میں وہ کم عقل اور نالائق ہوتے ہیں ۔ تحقیقات بتاتی ہیں کہ یہ کم عقلی کی وجہ سے نہیں ہوتا۔
اصل حقیقت یہ ہے:
ہر بچے کی ذہانت کو مساوات یا اعداد سے نہیں پرکھا جا سکتا۔ کچھ دماغ موسیقی کے لیے بنے ہیں، کچھ ہمدردی کے لیے، کچھ رنگوں اور کہانیوں کے لیے، اور کچھ دنیا کی باریکیوں کو خاموشی سے محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہاورڈ گارڈنر کے “کثیر الذہانت” کے نظریے (1983) کے مطابق ریاضی اور زبان صرف دماغی صلاحیت کے دو پہلو ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ذہانت کی کئی صورتیں ہیں: موسیقی کی ذہانت، جسمانی-حرکی مہارت، بین الافرادی اور ذاتی شعور، فطرت کے ساتھ حساسیت، اور بہت کچھ۔
🧠 گارڈنر کے مطابق جب ہم ذہانت کو صرف ریاضی کے نمبروں یا پڑھنے کی سطح سے ناپتے ہیں تو ہم انسانی صلاحیت کے کئی شعبے نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ایک بچہ جو کسر میں مشکل محسوس کرتا ہے، وہ کہانی سنانے، فنونِ لطیفہ یا کسی دوست کو دلاسہ دینے میں غیر معمولی صلاحیت رکھ سکتا ہے۔
یہ کیوں اہم ہے؟
کیونکہ جب ہم ذہانت کو صرف گریڈز سے جوڑتے ہیں تو ہمبچوں کی پرورش اس انداز سے کرنے لگتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں پر شک کرنے لگ جائیں ۔ ہم اس مصور، موسیقار، ہمدردی کرنے والے دل، اور ایک باکمال سراغرساں کو مایوس کر دیتے ہیں—صرف اس لیے کہ وہ اپنے ہم جماعتوں کی طرح جلدی پہاڑے یاد نہیں کر سکا۔
یہ رویہ صرف بچے کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو نقصان دیتا ہے۔ کیوں کہ جب ہم صرف چند مخصوص ذہانتوں کو اہمیت دیتے ہیں تو باقی تمام صلاحیتیں دب جاتی ہیں۔ اور پھر معاشرہ اپنے اصل معماروں، تخلیق کاروں اور قائدین سے محروم رہ جاتا ہے۔
سائنس ہمیں کیا بتا رہی ہے؟
سائنس یہ سرگوشی کر رہی ہے:
ذہانت ایک ہی راستہ نہیں۔
یہ امکانات کا ایک باغ ہے۔ 🌱
جب ہم اس باغ کو دیکھتے ہیں تو ہر بچہ ایک الگ پودا نظر آتا ہے—کوئی پھول ہے، کوئی سایہ دار درخت، کوئی خوشبودار جھاڑی۔ سب اپنی جگہ قیمتی اور ضروری ہیں۔
گھر میں اس کا عملی مطلب یہ ہے:
→ بچے کی تخلیقی صلاحیت کو سراہنا چاہے ریاضی کی ورک شیٹ مشکل لگتی ہو۔
→ ہمدردی اور شائستگی کو بھی ذہانت کا ایک پہلو سمجھنا۔
→ موسیقی، جذبے اور عملی تجربے کو سیکھنے کا ذریعہ بنانا۔
→ بچے کو یاد دلانا کہ ایک مضمون میں ناکام ہونا اسے “کم عقل” نہیں بناتا۔
→ اور سب سے بڑھ کر، ہر بچے کی کامیابی کو اس کے اپنے دائرے میں ناپنا، نہ کہ کسی اور کے پیمانے پر۔
یہ چیزیں بظاہر “اکیڈمک کامیابی” نہیں لگتیں، لیکن یہی وہ اصل کام ہے جو ایک مکمل، بااعتماد اور منفرد صلاحیتوں والے انسان کو پروان چڑھاتا ہے۔
: اصل حقیقت یہ ہے کہ
ایک بچہ جو ریاضی میں بہت اچھا نہیں ہے، وہ پھر بھی بے حد ذہین ہو سکتا ہے۔ اس کی صلاحیتیں بس کسی اور مٹی میں اگ رہی ہوں گی۔ اور جب ہم ان صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیتے ہیں تو ہم ایسے بچوں کی پرورش کرتے ہیں جنہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہو، نہ کہ وہ اس بات پر پشیمان رہیں کہ وہ کیا نہیں ہیں۔
شاید اصل سوال یہ نہیں ہے کہ:
“میرا بچہ ریاضی میں اچھا کیوں نہیں؟”
بلکہ یہ ہے کہ:
“میرا بچہ کس میدان میں ذہانت کا مظاہرہ کر سکتا ہے ؟”
کیونکہ ذہانت یہ نہیں کہ سب کچھ کر سکنا۔
ذہانت یہ ہے کہ آپ میں یہ جرات ہو کہ آپ اس نابغہ (genius) میں پروان چڑھیں جو پہلے ہی آپ کے اندر موجود ہے۔ 🤍