دارا کا شاہی جنازہ، سکندر کی سیاسی حکمت عملی یا ذاتی شرافت Darius’ royal funeral, Alexander’s political strategy or personal nobility?

دارا کا شاہی جنازہ، سکندر کی سیاسی حکمت عملی یا ذاتی شرافت  Darius’ royal funeral, Alexander’s political strategy or personal nobility?

سکندر اعظم کی مسلسل پیش قدمی کے باعث ایران کے آخری بادشاہ دارا سوئم نے ۳۳۰ قبل مسیح میں راہ فرار اختیار کی۔ سکندر اعظم کے مسلسل آگے بڑھنے کے باعث اس کی فوج پر اس قدر دباؤ تھا کہ وہ منتشر ہو چکی تھی ۔

جب دارا زخمی اور مایوس ہو کر مشرق کی طرف بھاگ رہا تھا، تو اس کے اپنے ہی جنرل بیسُس نے اس سے غداری کی۔

سکندر کی خوشنودی حاصل کرنے کی امید میں بیسُس نے ایرانی بادشاہ کو زنجیروں میں جکڑا اور ایک  بنجر علاقے میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

لیکن جب مقدونیہ کا ایک گشتی دستہ مرتے ہوئے دارا تک پہنچا، تو کچھ ایسا ہوا جس کی کسی کو توقع نہ تھی۔

اپنے سب سے بڑے حریف کے زوال پر جشن منانے کے بجائے، سکندر غصے سے بھر گیا۔

اس نے اس غداری کو حکمتِ عملی نہیں بلکہ بزدلی سمجھا۔

دارا اس کا دشمن ضرور تھا، مگر وہ پھر بھی ایک بادشاہ تھا۔

سکندر نے حکم دیا کہ بیسُس کو تلاش کرکے گرفتار کیا جائے اور اس کی غداری کی سزا کے طور پر اس کو قتل کیا جائے۔

پھر، ایک ایسا لمحہ آیا جس نے خود اس کے سپاہیوں کو بھی حیران کر دیا

سکندر نے دارا کے لیے مکمل شاہی جنازے کا اہتمام کیا۔

اس نے ایرانی روایات کے مطابق مرنے والے بادشاہ کو وہی عزت دی جو بادشاہوں کے لیے مخصوص ہوتی تھی۔

کسی کو سکندر سے ایسی رحم دلی کی توقع نہیں تھی، مگر سکندر نے اسےعزت دی۔

 

دارا کا جسدِ خاکی اس کے آبائی علاقے پرسپولیس بھیجا گیا، تاکہ اسے اس کے آبا و اجداد کے درمیان دفن کیا جا سکے۔ وہ بادشاہ جو لاکھوں انسانوں پر حکومت کرتا تھا،  تنہا مر گیا۔ اس کی آخری آرام گاہ اگرچہ اب وقت کی دھند میں گم ہو چکی ہے مگر سکندر نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اسے بھلایا نہ جائے ۔

دارا سوئم کی موت اور اس کے بعد سکندرِ اعظم کا رویہ محض ایک انسانی ہمدردی کا واقعہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک گہرا تاریخی اور سیاسی اشارہ تھا۔

 اس وقت کی جنگی روایات میں دشمن کو ذلیل کرنا طاقت اور خوف کا ہتھیار سمجھا جاتا تھا، مگر سکندر نے اس کے برعکس قدم اٹھایا۔ اس نے اپنے سب سے بڑے حریف کو ایرانی شاہی روایات کے مطابق مکمل احترام کے ساتھ دفن کیا، نہ صرف اس لیے کہ دارا ایک بادشاہ تھا بلکہ اس لیے بھی کہ وہ جانتا تھا کہ فتح صرف میدانِ جنگ میں نہیں حاصل کی جاتی بلکہ دلوں کو جیتنا بھی ضروری ہے۔

یہ اقدام ایرانی اشرافیہ اور عوام کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ نیا حکمران ان کی تہذیب، روایات اور بادشاہت کے وقار کو تسلیم کرتا ہے۔ اس فیصلے نے سکندر کو محض ایک فاتح سے بڑھا کر ایک شائستہ اور دوراندیش حکمران کے طور پر پیش کیا، جو اپنے دشمن کی عزت اور تکریم کی پاسداری کرتا ہے۔

 یوں دارا کا شاہی جنازہ ایک ایسا لمحہ بن گیا جو جنگ، سیاست اور انسانی شرافت—تینوں کو ایک تاریخی لڑی میں سمو دیتا ہے۔

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )