گائے دے موپاساں کے افسانے “دی نیکلس” کا تنقیدی مطالعہ A critical study of Guy de Maupassant’s novel “The Necklace”

دی نیکلس” ایک مشہور افسانہ ہے، جسے فرانسیسی مصنف” گائیکی دے موپاساں “ نے لکھا تھا۔ یہ کہانی ایک عورت میتھلڈ لوئیزل کے گرد گھومتی ہے جو نہایت غربت میں زندگی گزار رہی تھی، لیکن اس کا دل عیش و عشرت اور شاہانہ زندگی کا شدید خواہش مند تھا ۔
ایک دن میتھلڈ کو ایک شاندار دعوت میں شرکت کا موقع ملتا ہے، مگر اس کے پاس نہ تو اچھا لباس تھا اور نہ ہی زیورات ۔ چنانچہ وہ اپنی امیر دوست سے ایک خوبصورت ہار ادھار لیتی ہے جسے پہن کر محفل میں وہ خود کو ایک ملکہ کی مانند محسوس کرتی ہے — سب کی نظریں اس پر ہوتی ہیں۔
لیکن جب وہ رات ختم ہوتی ہے تو میتھلڈ کو پتا چلتا ہے کہ ہار گم ہو چکا ہے۔ گھبراہٹ میں وہ اور اس کا شوہر اصل ہار خریدنے کے لیے ایک بڑی رقم ادھار لیتے ہیں اور ویسا ہی ایک ہار خرید کر لوٹا دیتے ہیں اور پھر اگلے دس سال تک سخت محنت اور مشقت کرتے ہیں تاکہ قرض اتار سکیں۔
دس سال بعد، جب وہ آخرکار قرض سے نجات پاتے ہیں، توایک روز میتھلڈ کی ملاقات اپنی اسی امیر دوست سے ہوتی ہے جس سے اس نے ہار لیا تھا — اور تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس ہار کو وہ قیمتی سمجھ کر دس سال برباد کر بیٹھی، وہ تو نقلی تھا، اور اس کی مالیت بہت معمولی تھی۔
یہ کہانی اختتام پر ایک زبردست حقیقت آشکار کرتی ہے: جس دولت اور شان و شوکت کے فریب میں میتھلڈ نے اپنی زندگی کھپا دی، وہ سب ایک فریب تھا۔
یہ افسانہ فریبِ حسن، دکھاوے کی زندگی اور سماجی حیثیت کے حصول کی خواہش کے تباہ کن اثرات پر گہرا طنز ہے۔
یہ افسانہ اپنے اندر کئی اہم اسباق اور نتائج سموئے ہوئے ہے جو اس کہانی سے اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
:ظاہری چمک دمک ایک دھوکہ ہو سکتی ہے
بظاہر قیمتی اور خوبصورت دکھائی دینے والی اشیاء حقیقت میں انتہائی بے وقت بھی ہو سکتی ہیں۔، — جیسا کہ میتھلڈ کا ادھار لیا ہوا ہار۔
سچائی چھپانا بڑی مصیبتوں کو جنم دے سکتاہے ہ
اگر میتھلڈ اور اس کا شوہر ہار گم ہونے کی حقیقت اپنی دوست کو فوراً بتا دیتے، تو شاید ان کی زندگی برباد نہ ہوتی۔
خود کو دوسروں سے بڑا ظاہر کرنے کی خواہش خطرناک ثابت ہو سکتی ہے
محض دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے جھوٹی شان دکھانا انسان کو تباہی کے دہانے تک لے جا سکتا ہے۔
قناعت اور شکرگزاری میں سکون ہے:
میتھلڈ اپنی زندگی سے خوش رہتی تو اسے دس سال تک غربت و مشقت نہ سہنی پڑتی۔
*مقدر کو قبول کرنا اور اپنی حیثیت کے مطابق جینا دانشمندی ہے*
معاشرے میں اپنی حیثیت بلند کرنے کی خواہش اگر حد سے بڑھ جائے تو انسان اپنی موجودہ خوشیوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
زندگی کا اصل سکون ایک دوسرے کی قدر کرنے ، اچھے تعلقات رکھنے اور سچائی میں ہے— نہ کہ دکھاوے اور مادی اشیاء میں۔
یہ افسانہ نہ صرف ایک جذباتی داستان ہے بلکہ انسانی فطرت، معاشرتی دباؤ، اور مادہ پرستی کے تباہ کن اثرات کا عکاس بھی ہے۔