تابکاری کی دریافت سے کینسر کے علاج تک: میری کیوری کی شاندار سائنسی خدمات From the discovery of radiation to the cure for cancer: Marie Curie’s outstanding scientific contributions

میری کیوری ایک غیر معمولی سائنسدان تھیں جو پولینڈ میں پیدا ہوئیں اور بعد میں فرانس میں کام کرتی رہیں۔ انہوں نے ایٹم کے اندر چھپی ہوئی نظر نہ آنے والی طاقتوں کے بارے تحقیق کی اور اس کے بارے میں دنیا کے نظریے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔
میری کیوری پہلی خاتون تھیں جنہیں نوبل انعام سے نوازا گیا، اور وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے دو مختلف سائنسی شعبوں — فزکس اور کیمسٹری — میں نوبل انعام حاصل کیے۔
اپنے شوہر پیئر کیوری کے ساتھ مل کر، انہوں نے دو نئے عناصر — پولونیم اور ریڈیم — دریافت کیے، جن کی بدولت سائنسدانوں کو ریڈیوایکٹیویٹی جیسے پراسرار مظاہر کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ ان کی دریافتیں صرف تجربہ گاہوں تک محدود نہیں رہیں بلکہ ان کا فائدہ عملی زندگی میں بھی ہوا۔ میری کیوری کے کام کی بدولت ڈاکٹروں نے بیماریوں، خاص طور پر کینسر، کے علاج کے لیے ریڈی ایشن کو استعمال کرنے کے نئے طریقے دریافت کیے۔ آج بھی ریڈیوتھراپی ایک طاقتور طریقہ علاج ہے جو لاکھوں جانیں بچاتا ہے، کیونکہ یہ کینسر کے خلیات کو ہدف بنا کر تباہ کرتا ہے۔
میری کیوری نے پہلی عالمی جنگ کے دوران موبائل ایکس رے یونٹس کے استعمال کی بھی وکالت کی، جس کی مدد سے زخمی سپاہیوں کو میدانِ جنگ میں ہی فوری طبی اسکین فراہم کیے جا سکے — اور اسکے دوران طبی سہولیات کی فراہمی میں انقلابی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔
دونوں میاں بیوی، پیئر اور میری کیوری، تابکاری کے اثرات کے باعث مسلسل بیماریوں کا شکار رہے۔ میری کیوری کی موت 1934 میں 66 سال کی عمر میں “اپلاسٹک انیمیا” (خون کی ایک سنگین بیماری) کے باعث ہوئی، جس کا ممکنہ سبب لمبے عرصے تک تابکاری کی زد میں رہنا تھا۔ ان کی کچھ کتابیں اور تحقیقی کاغذات آج بھی تابکاری سے اس قدر آلودہ ہیں کہ انہیں سیسے کے ڈبوں میں محفوظ رکھا گیا ہے۔
ان کی میراث آج بھی دنیا بھر کے ہسپتالوں تحقیقاتی مراکز اور کینسر کلینکس میں زندہ ہے۔ جب بھی کوئی فرد ریڈی ایشن تھراپی سے علاج کراتا ہے یا ایکس رے کراتا ہے، وہ دراصل اس شاندار سائنسی سفر سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے جو میری کیوری نے ایک صدی سے بھی زیادہ پہلے شروع کیا تھا۔ ان کی جرات، ذہانت، اور لگن آج بھی سائنسدانوں — خاص طور پر خواتین — کو نامعلوم کی تلاش میں نکلنے اور دنیا کو بہتر بنانے کی ترغیب دیتی ہے۔