جورڈانو برونو: فکری آزادی کی علامت Giordano Bruno: Symbol of Intellectual Freedom

جورڈانو برونو: فکری آزادی کی علامت Giordano Bruno: Symbol of Intellectual Freedom
جب فکری آزادی کی قیمت آگ میں جلنا ٹھہری

 

روم کے ایک معروف میدان میں 1600 میں ایک شخص کو ایک ایسی سزا دی گئی جس کے بارے میں صدیوں سے انسانی ذہنوں میں سوالات اٹھتے رہے ہیں۔

کیا آزاد خیالی اور علمی جستجو اتنا بڑا جرم ہے جس کی تلافی جان دے کر کرنی پڑے؟

اطالوی فلسفی اور کائنات شناس جورڈانو برونو کی کہانی محض ایک فرد کا ذاتی المیہ نہیں، بلکہ ایک دور کی فکری کشمکش، اور جدید سائنس و فلسفے کے جنم کے وقت کی تاریخی تصویر ہے۔

:ابتدائی زندگی اور علمی سفر

جورڈانو برونو 1548ء کے آس پاس نپولی کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے ایک خانقاہ میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور اپنےزمانے کے لوگوں میں بلند مذہبی رتبہ حاصل کیا۔ا مگر ان کے خیالات جلد ہی رسمی مذہبی عقائد سے ٹکرانے لگے۔ انہوں نے یورپ بھر میں سفر کیا — انگلینڈ، فرانس، سویٹزرلینڈ وغیرہ — اور اپنےفلسفیانہ تصورات، کلامی مباحث اور آزادانہ اندازِ فکر کے ذریعے شہرت پائی۔

 

:کائنات کے متعلق ان کے خیالات

برونو نے کائنات کے جغرافیائی تصور کو رد کرتے ہوئے ایک وسیع، لامتناہی کائنات کا تصور پیش کیا جہاں ستارے محض روشنی دینے والے نقاط نہیں بلکہ بے شمار سورج ہیں، اور ہر سورج کے گرد ممکنہ طور پر سیارے ہو سکتے ہیں۔ یہ تصور اُس دور میں انقلابی تھا کیونکہ عموماً آسمان کو زمین کے لیے مخصوص اور محدود سمجھا جاتا تھا۔ برونو کے نزدیک کائنات میں زندگی کا امکان عام تھا ۔

 

:فلسفہ، مذہب اور جراتِ استدلال

برونو کے خیالات صرف فلکیات تک محدود نہیں تھے۔ انہوں نے روح، وجود، اور خدا کے روایتی تصور پر بھی سوال اٹھائے۔ ان کا فلسفہ زیادہ آزاد، عقل پر مبنی اور رمزی انداز اختیار کئے ہوئے تھا؛ اس میں انہوں نے یونانی فلسفہ، ہیلیوسینزم کے ابتدائی تصورات، اور جدید میٹافزکس کے عناصر کو ملایا۔ اس آزادیِ فکر نے ، مذہبی اور علمی حلقوں میں ان کے کئی دشمن بنا دئیے۔

 

;مقدمہ اور سزائے موت

برونو مختلف جگہوں پراپنے نظریات کی ترویج کرتا رھا جس کے باعث انہیں کئی بار مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ آخرکار 1592ء میں وہ وینس کے حکام کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور انہیں روم کے حکام کے حوالے کر دیا گیا۔ رومن حکومت نے ان پر کفر کا فتوٰی لگایا اور دیگر مذہبی تصورات سے اختلاف کی بنا پر1600ء میں انہیں سزاِ ئے موت سنائی گئی — اور 17 فروری 1600ء کو انہیں زندہ جلا دیا گیا۔

۔

:فوری اور طویل المدتی ردعمل

اس وقت کے مذہبی حلقوں میں برونو کی موت کو “درست” سزا قرار دیا گیا، مگر دانشوروں، فنکاروں اور بعد کے ترقی پسند حلقوں نے انہیں شہیدِ فکر قرار دیا۔ رینیسانس کے بعد آنے والی علمی تحریکوں، کوپرنیکس اور گلیلیو کے نظریات، اور آنے والی سائنسی انقلابات نے برونو کے نظریات کو ایک علامتی حیثیت دی — اگرچہ ان کے بعض فلسفیانہ دعوے سچ ثابت نہیں ہوئے، مگر ان کا کائنات کے بارے میں تصور جدید سوچ کے لیے متاثر کن بنا۔

 

برونو کی میراثفکری آزادی اور سائنس جستجو

آج برونو کو عموماً فکری آزادی کا نشان سمجھا جاتا ہے۔ ان کی قربانی نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا مذہبی یا سیاسی طاقتیں نئے خیالات کو دبانے کے لیے ہر حد پار کر سکتی ہیں؟ ان کے خیالات نے انسانی سوچ کی حدود کو چیلنج کیا اور یہ تصور دیا کہ کائنات میں ہماری جگہ محدود نہیں بلکہ یہ لامتناہی میدان ہے جس میں دریافت کی بے پناہ گنجائش ہے۔

۔

:برونو کا واقعہ ہمیں چند اہم باتیں سکھاتا ہے

– علم و تحقیق کے خلاف پابندیاں عموماً خوف، طاقت اور عدم برداشت کا نتیجہ ہوتی ہیں۔

– نئے خیالات ، بحث اور دلیل کے ذریعے اپنی جگہ بناتے ہیں؛ انہیں طاقت کے ذریعے دبانا مسئلے کو حل نہیں کرتا۔

– علمی پیش رفت کو قبول یا مسترد کرنے کا عمل شواہد، دلیل اور کھلی بحث پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ تشدد پر۔

– آزادیٔ اظہار اور مذہبی روایات کے درمیان توازن تلاش کرنا ایک پیچیدہ مگر ضروری معاشرتی چیلنج ہے۔

 

جورڈانو برونو ایک ایسا انسان تھا جس نے آسمانوں کو ایک وسیع امکان کے طور پر دیکھا — اور اسی تصور نے اسے عہدِ قدیم کے دائرے کے خلاف کھڑا کر دیا۔ اگرچہ برونو کو جلا کر خاموش کر دیا گیا، مگر ان کے خیالات بولتے رہے اور آنے والی نسلوں نے ان کے اُس سوال کو آگے بڑھایا جس نے سائنس اور فلسفہ کی حدود بدل دیں: کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں، یا یہ زندگی کے ہزاروں چہروں کو اپنے اندر سمٹائے ہوئے ہے؟

آج جب ہم رات کے تاریک آسمان پر نظر ڈالتے ہیں، ہر جگمگاتا ستارہ ہمیں برونو کی یاد دلاتا ہے—اس بات کی علامت کہ ذہن کی آزادی اور انسانی تجسس کبھی بھی مکمل طور پر جلائے یا دباۓ نہیں جا سکتے۔

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus ( )