!ایک نالائق بچے کی کہانی! The story of an incompetent child!

!ایک نالائق بچے کی کہانی!  The story of an incompetent child!

ایک وزیر تعلیم نے ایک غریب گاؤں کے ایک سرکاری سکول کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں کے قریب پہنچ کر وزیر صاحب کی گاڑی خراب ہو گئی تو وہ خرابی کی وجہ جاننے کے لئے گاڑی سے باہر نکلے۔ وزیر موصوف نے خود اور ان کے ڈرائیور نے بھی اپنی سمجھ کے مطابق انجن کا جائزہ لیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اسی دوران ایک بچہ وھاں سے گزرا۔ اس نے انہیں پریشان کھڑے دیکھ کر کہا کہ کیا آپ کو کوئی مدد چاہئے؟

وزیر نے مسکرا کر پوچھا “کیا آپ کار مکینکس کو سمجھتے ہو؟

بچے نے جواب دیا:” میرے والد مکینک ہیں، اور کبھی کبھی میں ان کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ آپ مجھے گاڑی دیکھنے دیں، شاید میں اسے ٹھیک کر سکوں۔

وزیر صاحب راضی ہو گئے، بچے نے کام شروع کرنے کے لئے اوزار مانگے ۔ بچہ مسئلے کی تشخیص اور مرمت کرنے لگا۔ وزیر حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔ بچہ کام سے فارغ ہوا تو اس نے گاڑی سٹارٹ کرنے کو کہا۔ ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی تو وہ یوں سٹارٹ ہوئی جیسے کبھی خراب ہوئی ہی نہ ہو۔

وزیر صاحب نے بچے کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ وہ سکول کیوں نہیں گیا۔ بچے نے جواب دیا کہ آج وزیر تعلیم ہمارے سکول کے دورے پر آ رہے ہیں، میں چونکہ اپنی کلاس میں سب سے نالائق طالب علم ہوں اس لئے میرے استاد صاحب نے مجھے  کہا ہے کہ میں آج سکول نہ آؤں، تاکہ میری نالائقی کے باعث انہیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

یہ بات سن کر وزیر صاحب کو بہت دکھ ہوا اور انہوں نے بچے کو اپنے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کو کہا، اس طرح وہ بچہ وزیر صاحب کے ساتھ سکول گیا۔

بچے کو وزیر کے ساتھ گاڑی سے اترتے دیکھ کر ڈائریکٹر، اساتذہ اور تمام بچے حیران رھ گئے۔

اس موقع پر وزیر نے نہ صرف بچے کی مہارت اور قابلیت کی تعریف کی بلکہ اسے تعریفی سرٹیفیکیٹ بھی پیش کیا۔ اس طرح اس کے وقار اور خود اعتمادی کو بحال کیا۔

یہ واقعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ سمجھنا حماقت ہے کہ کامیابی اور ذہانت صرف سکول کے نصاب کو سمجھنے تک محدود ہے

آج کی تیز رفتار اور ٹیکنالوجی کے بل پر آگے بڑھتی دنیا میں ذہانت کی مختلف شکلوں کو اپنانے کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔ مزید برآں، جیسے جیسے ٹیکنالوجی کا ارتقا ہو گا ،جذباتی ذہانت، تخلیقی صلاحیتوں اور دیگر مہارتوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔

مستقبل میں ایسے افراد کی مانگ میں اضافہ ہو گا جو تنقیدی انداز میں سوچ سکیں ، دیگر ثقافتوں کو سمجھ سکیں اور اپنی منفرد صلاحیتوں کو معاشرے میں بامعنی انداز میں استعمال کر سکیں ۔ ذہانت کے زیادہ جامع نظریہ کو اپنانے سے ہم افراد کو ان کی مکمل صلاحیتوں کو استعمال کرنے اور آنے والے کل کے چیلینجوں کے لئے تیار کر سکتے ہیں۔

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus ( )