سقراط۔۔۔جسے موت شکست نہ دے سکی
سقراط کے آخری الفاظ دو ہزار سال سے زیادہ کی ادبی اور تاریخی تشریحات کے باوجود پراسرار رہے ہیں۔
سقراط اور اس کے خیالات کے بارے میں ہم جو کچھ جانتے ہیں اس کا زیادہ حصہ ان مکالموں سےاخذ کیا گیا ہے جو افلاطون کے تحریر کردہ ہیں۔
سقراط پر قائم کئے گئے مقدمے میں اس پر ریاست کے دیوتاؤں کو مسترد کرنے اور نوجوانوں کو روایتی خیالات سے بدظن کرنے کا الزام لگایا گیا ۔
سقراط کو ممکنہ طور پر اسپارٹن کے حامی کے طور پر دیکھا جاتا تھا ۔ اگرچہ اس نے سپارٹن کے ساتھ مل کر کسی بھی قسم کی سازش کرنے کا انکار کیا ۔ اس نے ہمیشہ جمہوریت کو ہی طرز حکمرانی کے لئے ترجیح دی مگر ایتھنز کے حکمرانوں کو خوف تھا کہ اسپارٹن کے سیاسی نظریات کی حمایت کر کے وہ نوجوانوں کے ذہنوں کو ان کے مخالف سیاسی نظام کی جانب مائل کرے گا ۔ ایتھنز کے نوجوان ارسطو سے متاثر تھے اور وہ اس کے نظریات کے پر زور حامی تھے ۔
سقراط نے ایتھنز کے ممتاز لوگوں کو عوامی مکالمے میں شامل کیا جس سے ان کی سطحی سوچ آشکار ہو گئ اور وہ اس کے خلاف اکٹھے ہو گئے ۔
بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ سقراط نے خودکشی کی تھی ۔ یہ خیال ہر گز درست نہیں کیونکہ اسے ایک ایسی حکومت نے موت کی سزا دی تھی جو اس کے نظریات اور نوجوانوں کے اس کی جانب جھکاؤ سے خوفزدہ تھی ۔
سقراط کے دوستوں نے اسے فرار ہونے اور موت کی سزا سے بچنے کی ترغیب دی تھی لیکن سقراط نے ایتھنز کے جمہوری آئین کے احترام کی وجہ سے اس آسان راستے سے انکار کر دیا اس طرح اسے ان لوگوں کی طرف سے سزائے موت دی گئی جن کی اس نے عزت کی ۔
سقراط کو ہیملاک نامی زہر دیا گیا تھا ۔ اس کے زہر پینے سے پہلے ہی اس کے پیروکار اس کے گرد بیٹھے سوگ منا رہے تھے ۔ سقراط نے ان کے دکھ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میری موت نہیں بلکہ میری گفتگو کی موت دراصل دکھ کا باعث ہونی چاہیے۔
شاگردوں نے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آنسوؤں پر قابو پا لیا ۔
سقراط کے آخری لمحات کو افلاطون نے اپنے مکالمے میں بیان کیا یے جو کہ اس کی موت کا چشم دید گواہ بھی تھا ۔ وہ بیان کرتا ہے کہ
سقراط زہر پینے کے بعد کمرے میں گھومتا رہا پھر اس نے کہا کہ میری ٹانگیں بھاری ہو رہی ہیں اور وہ چادر تان کر لیٹ گیا ۔ خدمتگار جس نے زہر دیا تھا اس کا بھی یہی مشورہ تھا ۔ اس نے ٹانگوں کا جائزہ لیا اور پاؤں پر چٹکی لے کر پوچھا کہ کچھ محسوس ہوا ؟ سقراط نے جواب دیا ، نہیں ۔ پھر اس نے رانوں اور جسم کے اوپری حصے کی طرف دکھایا ، جسم ٹھنڈا اور سخت ہوتا جا رہا تھا ۔ “جب یہ اثر دل تک پہنچے گا تو یہ ختم ہو جائے گا” خدمتگار بولا ۔
کچھ دیر بعد سقراط نے چادر منہ سے اتاری اور اپنے شاگرد کریٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ،
“میں ایسکولیپٹس کے لئے ایک مرغ کا مقروض ہوں ”
اسے ادا کرو اور اس میں کوتاہی نہ کروا۔
کریٹو نے کہا، وہ ہو جائے گا کیا آپ کو کچھ اور کہنا ہے ؟ سقراط نے کوئی جواب نہ دیا اور چند ہی لمحوں بعد وہ جا چکا تھا ۔ اس کی آنکھیں ایک جانب جمی ہوئی تھیں۔ کریٹو نے اس کا منہ اور آنکھیں بند کیں ۔
یہ انجام تھا اس شخص کا جس کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ بہتر ، عقلمند اور نیک تھا ۔
سقراط کے آخری الفاظ کی مختلف انداز میں توجیح پیش کی جاتی ہے جس میں سے ایک معقول توجیح یہ ہے کہ سقراط کے نزدیک انسانی روح لافانی ہے مگر اس فانی جسم کی قید مہں پھینک دی گئی ہے ۔ اس لحاظ سے ایک فلسفی کی موت غمگین ہونے والی چیز نہیں کیونکہ یہ اس کی روح کو آزاد کر دے گی اور سچائی اور بھلائی کی دنیا میں اس کی واپسی کو یقینی بنائے گی ۔
ایسکولیپٹس چونکہ شفایابی کا دیوتا تھا اس لئے سقراط کے لئے موت کے وقت اس کا شکریہ ادا کرنا فطری تھا ۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ سقراط شکرگزار ہے اس زہر کے لئے جو اسے پینے پر مجبور کیا گیا ۔
سقراط کا قانون توڑنے سے انکار اور بہادرانہ انداز میں جان دینا اس کی بلند کرداری اور تقوی کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اس کے مقاصد کتنے اعلٰی تھے ۔ اس کے مخالف اس کے بارے میں کس قدر غلط اندازے لگا کر بیٹھے تھے ۔
اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہئں کہ ایتھنز کے باشندے خاص طور پر نوجوان اسے بہت پسند کرتے تھے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ شہر کی کرپٹ اشرافیہ کے خلاف کھل کر بولتا اور انہیں بےنقاب کرتا ۔ دوسری طرف وہ لوگ جو اس کی اس گفتگو کے متاثرین تھے یقینی طور پر اسے ناپسند کرتے تھے ۔ سقراط نے زیادہ تر نوجوانوں کو مخاطب کیا کیونکہ اس کے خیال میں وہ زیادہ روشن دماغ تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ لوگ سچ کو زیادہ ہسند نہیں کرتے نہ ہی اس میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ یہ ثابت کرنے کے لئے قدیم یونان کی تاریخ میں جھانکنا ضروری نہیں اپنے ارد گرد کے انسانوں پر ہی نظر ڈالیں تو اس حقیقت کا ادراک کیا جا سکتا ہے ۔
سقراط نے اپنے دفاع کا آغاز اس اعلان کے ساتھ کیا کہ وہ سچ بولے گا ۔ سچائی خود اس کا دفاع کرے گی ۔ یہ بڑی ستم ظریفی ہے کہ مقدمہ سیاسی محرکات کے باعث چلایا گیااور سقراط نے خود کو سچ بولنے کا پابند کر کے اپنے دفاع کی کوشش کی ۔
سقراط کے لئے مرنا کوئی بڑی چیز نہ تھی ۔ وہ ایک روشن دماغ شخص تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ روح لافانی ہے اور وہ جانتا تھا کہ وہ جس جگہ پر ہے اس سے بد تر جگہ پر ہر گز نہ جائے گا مگر اس نے زندگی سے ہار بھی نہیں مانی تھی ۔اسے جینا اور بحث کرنا پسند تھا ۔ اس نے ایک بھر پور زندگی گزاری تھی ۔ وہ حق کا داعی تھا اور جانتا تھا کہ موت اسے شکست نہیں دے سکتی جبکہ ایتھنز سے فرار ہونے کا مطلب یہ تھا کہ وہ کبھی اپنے لوگوں اور خاندان کو دوبارہ نہ دیکھ سکتا اور اس شخص کی طرح ذلت سے جیتا جو مرنے سے ڈرتا ہو ۔
سقراط کا خیال تھا کہ قانون کا احترام کیا جانا چاہیے چاہے وہ غلطی پر ہی ہو ورنہ سیاسی نظم تباہ یو جائے گا ۔ چنانچہ اس نے زہر پینے کو ترجیح دی اور تاریخ کے اوراق میں امر ہو گیا ۔