شباب سے پہلے ( آخری حصہ) | Before Shabab (last part)

شباب سے پہلے ( آخری حصہ) | Before Shabab (last part)
میں واپس ہوسٹل چلا آیا اور ایک عزم سے شام کے پرچے کی تیاری کرنے لگا
١٩٥٣ میں جبکہ میں تھرڈاٸر کا طالب علم تھا  ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے باعث مارشل لا کا نفاذ ہوا اور میجر جنرل اعظم خان کے ہاتھوں تمام اختیارات سونپ دیۓ گیۓ ۔ مارشل لا کے اختتام پر پنجاب کی وزارت توڑ دی گٸی اور ملک فیروز خان نون نٸے وزیرِ اعلیٰ پنجاب بن گٸے ۔  زندگی ایک بار پھر اپنے معمول پر آ گٸی ۔ تھرڈ اٸر کا امتحان دینے کے بعد مجھے فورتھ اٸر میں ترقی دی گٸی ۔
گرمیوں کی تعطیلات میں جب میں گھر واپس گیاتو گھر کا نقشہ بدلا ہوا تھا ۔ والد صاحب نے بوجہء علالت ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا ۔ لڈن سے ترکِ سکونت کر کے سب لوگ وھاڑی آ گٸے ۔ وھاڑی میں والد صاحب نے پیشتر ازیں مکان کی تعمیر شروع کر دی تھی چناچہ نصف تعمیر کردہ مکان میں ہم لوگ رہائش پذیر ہو گٸے ۔ والد صاحب کی بے کاری کے ساتھ ساتھ بھاٸی صاحب کے کاروبار میں بھی زوال آنا شروع ہو گیا ۔ آخر کار دُکان فیل ہو گٸی ۔ اس طرح مصائب  نے ہر چہار طرف سے گھیرنا شروع کیا جس سے والد صاحب کی صحت پر بہت بُرا اثر پڑا ۔ دن بدن ان کی صحت گرنا شروع ہو گٸی اور بیماری جو عرصہ دراز سے لاحق تھی ٗ نے پورا غلبہ پا لیا ۔
تعطیلات ختم ہونے پر واپس کالج چلا آیا ۔ گھر کی حالت کا اندازہ کرتے ہوۓ میں نے والد صاحب سے گذارش کی کہ موجودہ حالات میں پڑھاٸی جاری رکھنا مشکل ہے مگر والد صاحب قبلہ نے یہ گوارا نہ کیا اور باوجود ان جملہ مصائب کے مجھے کالج جانے کا حکم دیا ۔ سالِ چہارم میرے لٸے بہت گراں ثابت ہوا کیونکہ ہر آن گھر کی طرف دھیان رہتا اور یہ فکر ہر وقت دامن گیر رہتا کہ اہلِ خانہ نہ جانے کس حال میں ہوں گے مگر بے کسی اور بے چارگی کا عالم ملاحظہ ہو کہ باوجود ان احساسات اور جذبات کے ماہانہ اخراجات کے لٸے مبلغّات کا مطالبہ پھر بھی ان سے تھا ۔ خداوندتعالیٰ نے اپنی خاص قدرت سے پردہء غیب سے سامان پیدا کیا اور میری تعلیم کا سلسلہ جوں توں کر کے جاری رہا ۔ تعلیمی سال ختم ہوا ۔ داخلہ بھیج دیا گیا رولنمبر مل گیا اور امتحان شروع ہو گیا اور آخر کار خاتمہ کے قریب پہنچ گیا ۔ تحریری پرچے ختم ہو گٸے صرف ایسٹرونومی کا پریکٹیکل باقی رھ گیا ۔
١٨ مٸی کا وہ منحوس دن آن پہنچا جب میری متاعِ عزیز مجھ سے ہمیشہ کے لٸے چھین لی گٸی ۔ صبح ٩ بجے کا وقت ہو گا میں اپنے ایک دوست کے پاس بیٹھا ہوا چند ایک مساٸل کے متعلق بحث کر رہا تھا کہ ایک طالب علم اس کمرے کے دروازے کے سامنے آ کر رُکا اور مجھے اشارے سے بلایا ۔ جب میں باہر نکلا تو اس نے مجھے بتایا کہ وھاڑی سے اطلاع آٸی ہے کہ تمھارے والد صاحب فوت ہو گٸے ہیں ۔ مجھے چونکہ ان کی بیماری کی اطلاع نہ تھی ٗ یوں تو ان کی صحت کمزور ہی تھی مگر یہ معلوم نہ تھا کہ صحت اس حد تک گر چکی ہے اس لٸے مجھے یوں محسوس ہوا کہ زمین پاٶں تلے سے نکلی جا رہی ہے اور آسمان گھوم رہا ہے ۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اس طالب علم سے مزید تسلی کی کہ کیا ” میرے والد صاحب“ فوت ہو گٸے ہیں ۔ اس نے وثوق سے جواب دیا کہ ہاں تمہارے والد صاحب ۔ نیز اس نے مجھے اس کے ساتھ کالج آفس میں جانے کے لیے کہا کیونکہ میرے ماموں صاحب مجھے فون پر یہ خبر خود سنانا چاہتے تھے چناچہ میں بھاری قدموں سے آہستہ آہستہ دفتر پہنچا دنیا میری نظروں میں اندھیر ہو گٸی ۔ آنِ واحد میں میں یتیم ہو چکا تھا ۔ میرے والد صاحب ٗ میرے پیارے ابا جان نہایت مشفق اور مہربان باپ کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا ۔ میں نے محسوس کیا کہ ہر چیز بدل چکی ھے ۔ میں پلاٹ سے گزر رہا تھا ادھر اُدھر گھاس پر طلبا بیٹھے ہوۓ تھے۔ میں نے یوں محسوس کیا کہ سب پر میری مصیبت عیاں ہو چکی ہے ۔ میرے ماموں جان نے فون پر بتایا کہ قبلہ والد
صاحب رحلت فرما گٸے ہیں ۔ میں نے نہایت صبر اور استقامت کا ثبوت دیا اور جواب میں اناّللہ واناّ علیہ راجعون پڑھ دیا ۔
جب والد صاحب کی فوتیدگی کی خبر مجھے ملی تو پریکٹکل کا ایک امتحان ابھی باقی تھا ۔ ایسی اندوہناک خبر سننے کے بعد بھلا امتحان میں شمولیت کا کسے
حوصلہ ہو سکتا ہے چناچہ میں دل شکستہ رنج و مِحَن سے چُور جانبِ اڈہ لاریاں  روانہ ہوا ۔ اڈہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ ابھی ابھی ایک بس وھاڑی روانہ ہو چکی ہے اور اس کے بعد رات کو ڈھاٸی بجے بس جاۓ گی ۔ میں انتظار گاہ میں بیٹھ گیا اور سوچنا شروع کر دیا ۔ معاً  مجھے یہ خیال آیا کہ ابا جان نے باوجود بیمار ہونے کے مجھے اطلاع نہ دی حتیٰ کہ اس جہانِ فانی سے کُوچ کر گٸے اس طرح پر انہوں نے اپنی صحت اور جان پر میرے امتحان کو ترجیح دی ۔ میں نے سوچا کہ اگر انہوں نے پسند نہیں کیا کہ میں امتحان چھوڑ کر آٶں تو اب ان کے مرنے کے بعد میں ان کی خواہش کے خلاف کام کیوں کروں ۔ یہ سوچ کر میں واپس ہوسٹل چلا آیا اور ایک عزم سے شام کے پرچے کے لٸے تیاری کرنے لگا ۔ میرے اس فعل کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے مجھے ہمت اور صبر عطا کیا اور میں نے پوری کوشش سے امتحان دیا ۔ واپس آتے ہوۓ میں نے گھر تار دے دیا تھا کہ جنازے پر میرا انتظار نہ کیا جاۓ ۔ دوسرے روز گھر پہنچنے پر جو کچھ میں نے دیکھا یا محسوس کیا وہ قابلِ بیان نہیں۔
CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )