ڈاکٹر جیمز بیڈ فورڈ ۔ پہلا انسان جسےمنجمد کیا گیا Dr. James Bedford. The first man to be frozen
ڈاکٹر جیمز بیڈ فورڈ کا انتقال آج سے پچاس برس پہلے ٧٣ برس کی عمر میں ہوا ۔ وہ گردوں کےکینسر میں مبتلا تھے ۔ جس بات نے بیڈ فورڈ کی موت کومنفرد قرار دیا وہ یہ نہیں تھی کہ وہ کیسے مرا ، بلکہ اس کےبعد جو ہوا اسنے تاریخ میں اس کی موت کو منفرد حیثیت دلواٸی ۔
بیڈ فورڈ وہ پہلا انسان ہے جس کی وفات کے بعد تدفین کرنے کے بجائے پریزرویشن میں رکھا گیا اور اس تقریب کی سالگرہ کو بیڈ فورڈ ڈے کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔
جیمزبیڈ فورڈ کیلیفورنیایونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر تھے ۔ ١٩٦٧میں اپنی وفات سے پہلے بیڈ فورڈنے کریوجینک طور پر منجمد ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ مستقبل میں ان کے شعور کو زیادہ بہتر ٹیکنالوجی کی مدد سےزندہ کیا جا سکے اور ان کےجسم کی مرمت کی جا سکے ۔ کینسرمیں مبتلا ہونے کی وجہ سے وہ جانتا تھا کہ وہ موت کے قریب ہے اس لیےاس نے اپنے جسم کی حفاظت کے لیے ایک لاکھ ڈالر کی وصیت کی ۔
١٢ جنوری ١٩٦٧ کو اچانک بیڈ فورڈ کی وفات ہو گٸی ۔اس وقت تک کریانک انڈسٹری تحقیق کے ابتدائی مدارج میں تھی ۔ بیڈ فورڈ کی نرس نے جلد بازی میں ہمساٸیوں سے برف کے بلاک اکٹھے کیے اور پھر اس نے لاٸف ایکسٹنشن سوساٸٹی کوبلایا ۔
ماہرین کی ایک ٹیم فوراً پہنچ گٸی اور انہوں نے جسم کو تیار کرنا شروع کر دیا ۔ انہوں نے کریو جینکس کی تکنیک کو استعمال کرتے ہوۓ میڈیکل گریڈ اینٹی فریز کو اس کے خون میں شامل کیا تا کہ ماٸع فوراً منجمد ہو کر اندرونی اعضاء کو نقصان نہ پہنچاۓ اور اس کے سسٹم کے ذریعے ہی آکسیجن پمپ کرتے رہے تاکہ دماغ کوپہنچنے والے نقصان کو کم کیا جا سکے ۔
لیکوٸڈ ناٸٹروجن سے بھرے ٹینک میں رکھنے سے پہلے ، جس کا درجہ حرارت 196- تھا اسے ایک ایسےکیپسول میں رکھا گیا جس میں برف تھی اور اس کا درجہ حرارت 79- ڈگری تھا ۔
اگلے دو سال تک بیڈ فورڈ کی لاش کو ایریزونامیں رکھا گیا اور پھر اسے کیلیفورنیا منتقل کر دیا گیا ۔ اس دوران بیڈ فورڈ کے رشتہ دار یہ مطالبہ کرتے رہے کہ اس کےجسم کو پگھلا کر اس کی تدفین کی جاۓ ۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے قانونی چارہ جوٸی بھی کی مگر اس کی بیوی اور بیٹے نے اپنےباپ کی خواہش کو پوراکرنےکا تہیہ کر رکھا تھا چناچہ اس مقدمےکی پیروی میں انہوں نےکثیر رقم خرچ کی ۔ 1982 میں بیڈ فورڈ کی لاش الکور لاٸف ایکسٹنشن فاٶنڈیشن کو سونپ دی گٸی جہاں وہ آج تک محفوظ ہے ۔ مگر یہ جسم کس حد تک محفوظ ہے یہ سوال آج بھی اٹھایا جاتا ہے ۔
ایک منجمد جسم کو دوبارہ زندہ کرنا آج بھی اتنا ہی بعید از قیاس ہے ۔ ساٸنسدانوں میں بھی اس کےبارےمیں اتنے شکوک و شبہات پاۓجاتے ہیں کہ ان کے خیال میں ایسی امید کوبیچنابھی انتہاٸی غیر اخلاقی ہے اور اگر ایسی طبی تحقیق میں پیش رفت کی بھی جاتی ہے توبھی اس کابہت کم امکان ہے کہ بیڈفورڈ کو دوبارہ زندہ کیا جا سکے ۔ کیونکہ حقیقی وٹریفیکیشن کاعمل جو جسم کے سیال کو برف جیسے کرسٹل میں تبدیل کیےبغیر جیل کی شکل میں تبدیل کرتا ہے وہ 1980 کی دہاٸی میں متعارف ہی نہیں ہوا تھا ۔۔ مزید یہ کہ اینٹی فریز ، ڈیمیتھل سلف آکساٸڈ ، جو کبھی طویل مدتی انجماد کے لیے مفیدسمجھا جاتا تھا اب استعمال نہیں ہوتا اور یقیناً وہ بیڈ فورڈ کےدماغ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا چکا ہو گا ۔
ایلکور لاٸف ایکسٹنشن فاٶنڈیشن کی طرف سےجاری کی گٸی ایک رپورٹ کےمطابق بیڈفورڈ ایک گہری کوما جیسی حالت میں ہے جسے نہ تو قانوناً زندہ قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی مردہ ۔
اس امید پر کہ مستقبل میں اس ٹیکنالوجی میں مزیدبہتری آۓ گی بہت سے لوگوں نے کمرشل کریونک فسیلیٹی کے پاس رجسٹریشن کروا رکھی ہے ۔
١٩٩١ میں بیڈ فورڈ کے جسم کاجاٸزہ لیا گیا جس کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ اس کےبازو اورجسم کا اوپر کا حصہ سرخ اور کچھ بدرنگ ہو چکا ہے جیسا کہ کسی انفیکشن کے باعث ہوتا ہے ۔ اسی طرح ابتداٸی طور پرمنجمد کرنے کی کوشش کے دوران برف کی سلیب کے دباٶ سے اس کی ناک چپٹی ہو گٸی تھی اورسینے کی جلد بھی پھٹ گٸی تھی ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر بیڈ فورڈ واقعی دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے تو وہ ایک بھوت کی طرح دکھاٸی دے گا ۔
محققین ابھی تک اس بارے میں پر یقین نہیں کہ ایک مکمل انسان کو کریوپرزرویشن کےبعد دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے یانہیں ، لیکن معطل حرکت پذیری ایک مفید ٹیکنالوجی ثابت ہو گی ۔ مثال کے طور پر پٹسبرگ ، پنسلوانیا ، میں یو پی ایم سی پریسبیٹیرین ہسپتال کے محققین ایمرجنسی مریضوں کی جان بچانے کے لیے معطل حرکت پذیری کی قلیل مدتی شکل آزمانے کا ارادہ رکھتے ہیں اور اگر طویل مدتی کریوپریزرویشن میں کامیابی حاصل ہو گٸ تو اس سے مستقبل میں ادویات کی تحقیق اور خلاٸی تحقیق میں بے پناہ مدد مل سکتی ہے ۔
بیڈ فورڈ شاٸد کبھی زندہ نہ ہو سکے لیکن اس کا جسم ان وسیع مقاصد کے حصول کی یادگار کے طور پر باقی رہے گا اگرچہ نہ تو وہ تکنیکی لہاظ سے زندہ کہلا سکتا ہے اور نہ ہی مردہ ۔