ہم ناقص فیصلے کیوں کرتے ہیں Why We Make Bad Decisions
ہم میں سے ہر شخص خود کو عقلمند اور منطقی سوچ کا حامل متصور کرتا ہے لیکن حقیقت اس سے بلکل مختلف ہے۔ ایک طویل عرصے تک ماہرین کا خیال تھا کہ انسانی زہن منطقی انداز میں سوچتا ہے اور بہترین فیصلے کرتا ہے مگر حالیہ دہائیوں میں ماہرین نے کئی ذہنی غلطیوں کا انکشاف کیا ہے جو ہماری سوچ پر اثر انداز ہوتی ہیں مثلاً بعض اوقات ہمیں بہت جلدی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں ہمیں تیزی سے اقدامات کرنے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہم متعلقہ معلومات اور اعدادوشمار کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور بعض اوقات غلط فیصلہ کر بیٹھتے ہیں جن پر ہمیں پچھتانا پڑتا ہے اسی لئے مشکل فیصلہ کرتے ہوئے ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ وقت سوچنے اور غور کرنے کے بعد ہی فیصلہ ہو مگر فیصلہ کئے بغیر چارہ نہیں تو ضروری ہے کہ ان تمام محرکات کا جائزہ لیا جائے جو درست فیصلہ کرنے کی راہ میں حائل ہوتے ہیں ۔
فیصلہ سازی ایک مشکل ذہنی عمل ہے
فیصلہ سازی مکمل طور پر ایک علمی عمل ہے اور جب یہ عمل پیچیدہ ہو جاتا ہے تو ہمارا ذہن اسے آسان اور تیز تر بنانے کے لئے شارٹ کٹ اور مختلف چالوں کو تلاش کرتا ہے اور بعض اوقات یہ چالیں برے نتائج پیدا کرتی ہیں کیونکہ ہمارے ہر فیصلے کا انحصار ماحول سے حاصل کردہ معلومات کی ترجمانی اور تجزیے پر ہوتا ہے ۔
ایک ہی جیسی صورتحال میں اور ایک ہی جیسی معلومات کی فراہمی کے باوجود لوگ مختلف فیصلے کرتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مختلف انداز میں سوچتے ہیں ۔
پہلا تأثر
فیصلہ کرتے وقت جو معلومات ہمیں پہلے ملتی ہیں اس کا اثر گہرا ہوتا ہے۔ ہمارا ذہن ہمیشہ مانوس اشیاء کو ترجیح دیتا ہے ۔ایک چیز کے لئے جب نئی معلومات آتی ہیں تو ان کا موازنہ ہم پرانی سے کرتے ہیں اور یہ جانچتے ہیں کہ کس طرح یہ پہلی سے بہتر یا بدتر ہیں مثلاً آپ ایک بیگ خریدنے بازار جاتے ہیں پہلی دوکان میں ایک خوبصورت بیگ آپ کی توجہ حاصل کر لیتا ہے آپ اس کی قیمت معلوم کرتے ہیں مگر ابھی خریدتے نہیں کیونکہ آپ کے پاس ابھی ایک گھنٹہ ہے اور آپ دوسری دوکانوں میں بھی دیکھنا چاہتے ہیں ۔ وہاں آپ کو ایک اور بیگ دکھائی دیتا ہے جو پہلے بیگ سے کم خوبصورت ہے اور اس کی قیمت بھی اس سے زیادہ ہے پہلے بیگ سے موازنے کی وجہ سے یہ بیگ مہنگا اور کم خوبصورت دکھائی دے گا اسی طرح اگلی دوکان پر پہلے سے کم قیمت بیگ دکھائی دیتا ہے مگر وہ اچھے برینڈ کا نہیں تو آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ جو بیگ پہلی دوکان میں دیکھا تھا وہ اچھے برینڈ اور مناسب قیمت ہونے کے باعث زیادہ موزوں ہے. مارکیٹنگ کے شعبے میں اس تاثر کو ایک اہم محرک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور مختلف پروموشنز کی پیشکش کی جاتی ہے ۔
انتخابات کی پیشکش کا اثر
ہم جو بھی فیصلے کرتے ہیں وہ اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں کہ ہمارے سامنے انتخاب کو کیسے پیش کیا گیا ہے ۔ مثبت یا منفی تاثر کے ساتھ پیش کیے گئے انتخاب کا ہمارے فیصلے پر اثر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دواساز کمپنیاں اپنی کامیابی کا تناسب بتاتی ہیں نہ کہ ضمنی اثرات کا ۔ ہم ہمیشہ محفوظ آپشن کی تلاش میں رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب کوئی انتخاب نقصان کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے تو ہم اس آپشن کو دیکھتے ہیں جس میں نقصان کم سے کم ہو ۔
اپنے عقائد کو درست ثابت کرنے کی خواہش
ہمارا ذہن اکثر اوقات کسی صورتحال یا معلومات پر اپنی خواہشات کے مطابق مفروضے قائم کر لیتا ہے اور پھر اسے درست ثابت کرنے کے لئے تحقیق اور جستجو کرتا ہے ۔ ہمارا ذہن ایسی چیزوں پر توجہ مرکوز کرتا ہے جو ہمارے پہلے عقائد کو تقویت بخشتی ہیں۔ یہ ایک خطرناک رحجان ہے ۔ یہ رحجان انسان کو معروضی حقائق سے دور لے جاتا ہے اور انسان اپنے اندر کی تصوراتی دنیا میں پناہ حاصل کرنے لگتا ہے. مثلاً تمباکو نوشی کرنے والے اس کے نقصانات کے بارے میں نہیں پڑہنا چاہتے بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اس سے آپ کی ذہنی توانائیوں میں یکلخت اضافہ ہو جاتا ہے اس سے تمباکو نوشی کی عادت کی منظوری ملتی ہے ۔
ذہنی چالوں سے نکلنا آسان نہیں کیونکہ یہ لاشعوری عمل ہوتا ہے ہم روز مرہ کی فیصلہ سازی میں انہی عوامل کا استعمال کرتے ہیں ان تمام ذہنی تعصبات سے نکلنا آسان نہیں ہوتا مگر ہم ان کے منفی اثرات کو کم کر سکتے ہیں۔ ہمارا دماغ ہمیں دھوکہ دینے کے نئے طریقے ڈھونڈتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں ہم کئی غلط فیصلے کرتے رہتے ہیں ۔
اپنے عقائد کے تعصب میں پھنس جانے کا ادراک ہمیں اس سے آزاد ہونے میں مدد دیتا ہے ۔ ممکنہ فوائد کے بجائے ممکنہ نقصانات پر بھی توجہ مرکوز کریں اور مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کے بارے میں خود سے سوال کریں اس طرح ہم اپنے فیصلہ سازی کے عمل کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔