بچوں کی کردار سازی میں والدین کا کردار
والدین چاہے جوان ہوں یا بوڑھے، امیر ہوں یا غریب ہمیشہ اپنی اولاد کی بھلائی اور زندگی میں ان کے لیے کامیابی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ بچوں سے متعلق کیے جانے والے روزمرہ کے فیصلوں کو بہتر بنانے کے لئے بے شمار کتابیں اور انٹرنیٹ پر بہت سا مواد موجود ہے جن میں بچوں کی نشوونما سے متعلق بہت سی نصیحتیں پائی جاتی ہیں۔
اگرچہ ان میں بہت سی متضاد آرا بھی موجود ہوتی ہیں مگر ایک ایسا پیغام جو آپ کو ان سب میں مشترک ملے گا وہ یہ ہے کہ اگر آپ کا بچہ کامیاب نہیں ہو رہا تو یقینا آپ اس کی پرورش میں کوئی غلطی کر رہے ہیں۔
بہت سے والدین کے لئے اچھی خبر یہ ہے کہ سائنس اس کے برعکس پیغام دیتی ہے ۔
والدین کی پسند ناپسند اور ان کے انتخاب کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا کہ بچہ بڑا ہو کر کیسا انسان بنے گا نہایت بعید از قیاس ہے ۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم بہت سے ایسے والدین کو دیکھتے ہیں جو اپنی فیلڈ میں بہت کامیاب ہوتے ہیں اور اس طرح ان کے بچے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کامیاب انسان بن جاتے ہیں۔ یہ مثال والدین کی تربیت اور مدد کی سادہ سی طاقت کو تو ضرور ظاہر کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بچے کی شخصیت کی تعمیر میں بہت سے عوامل کار فرما ہوتے ہیں جو اکثر آپس میں جڑے ہوتے ہیں مثلا والدین، جینز، ساتھی اور معاشرتی عوامل جن میں وہ زندگی گزارتے ہیں۔ یہ تمام ممکنہ عوامل ہیں ، ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان میں سے کون سی طاقت بچے پر کس طرح اور کس حد تک اثر انداز ہو گی اور کس طرح بچےکی شخصیت کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرے گی ۔
سائنس یہ سمجھنے میں والدین کی مدد کر سکتی ہے کہ وہ اپنے بچے کی شخصیت کی تشکیل میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ سائنسدانوں نے لاکھوں بچوں کا مطالعہ کیا جن میں سے کئی جڑواں اور کئی عام بہن بھائی تھے ۔ کچھ ایسے تھے جن کی پرورش ایک ہی گھر میں ہوئی تھی اور کچھ کو مختلف لوگوں نے گود لیا اور ان کی پرورش کی ۔ اس مطالعے میں یہ معلوم ہوا کہ بہن بھائی خواہ الگ گھروں میں پرورش پا رہے ہوں یا ایک ہی گھر میں ان میں پایا جانے والا فرق ایک جیسا ہی رہتا ہے ۔ ایک ہی گھر میں پرورش پانا بچوں کو نمایاں طور پر ایک جیسا نہیں بناتا ۔
ایک مطالعاتی پروگرام کے تحت 2015 میں 39 ممالک کے 14 ملین سے زائد بچوں کا مطالعہ کیا گیا اور 17000 سے زائد نتائج کی پیمائش کی گئی۔ ان نتائج میں ماہرین نے مشاہدہ کیا وراثتی عناصر یعنی ہمارے جینز اس عمل میں خاص کردار ادا کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت کیسی ہو گی اور اس کے ساتھ ماحول بھی اپنا اثر ڈالتا ہے ۔
اس مطالعے سے کئی لوگوں کے دماغ میں یہ خیال ابھرا کہ شاید تربیت شخصیت کی تعمیر میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کرتی یا والدین کا بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں کوئی کردار نہیں ۔
بہن بھائیوں کی مماثلت ایک ایسا عنصر ہے جسے ہم پوری طرح سمجھ نہیں سکتے ۔ اگر والدین بچوں کے دوستوں کے بارے میں معلومات رکھنے کی کوشش کریں تو ایک بچہ اسے ماں باپ کی محبت اور خبر گیری سے تعبیر کرے گا جبکہ دوسرا بچہ اسے بے جا مداخلت سمجھ سکتا ہے ۔ اسی طرح والدین کے درمیان طلاق جیسے معاملات میں ہر بچہ اپنی مختلف رائے رکھ سکتا ہے ۔
غرض ہر بچہ ماحول، جینیات اور تربیت سے ایک خاص حصہ حاصل کرتا ہے ۔جو اس کی شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں۔
بچے کی زندگی کے آغاز سے ہی والدین اس کے لئے پہلا ماڈل ہوتے ہیں ۔ والدین ہی ان کے سب سے پہلے استاد ہیں جو انہیں بتاتے ہیں کہ دوسروں کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے اور اپنے جذبات کو کیسے سنبھالنا ہے ۔
والدین بچوں کے لئے رول ماڈل ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ بچے بعض دفعہ آپ کی بات سنتے ہیں اور بعض دفعہ نہیں مگر وہ آپ کے کام پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔
اچھے والدین بننے کے لئے ایک مکمل شخصیت رکھنا یا ہر خوبی کا مالک ہونا ضروری نہیں۔ درحقیقت شخصیت میں کچھ کمزوریوں کآ ہونا اور ان کو دور کرنے کی کوشش میں لگے رہنا ہی ایک بہتر طرزِعمل ہے جو بچوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ اگر ان میں بھی خامیاں ہیں تو اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ آپ کی شخصیت ان کے لئے ایسا نمونہ بنے گی جو اپنے مسائل کا سامنا کرتا ہے ، جو حقیقت سے نہیں بھاگتا ، کوشش کرتا ہے اور خود کو اور اپنے حالات کو بہتر بنانے کی جدوجہد میں لگا رہتا ہے ۔ زندگی کی مشکلات پر قابو پانے کے لئے حوصلہ دینے کا یہ سب سے بہتر طریقہ ہے ۔
آپ کا بچہ تمام عمر آپ کی آواز اپنے دماغ میں سنتا رہے گا ۔ یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ آپ اسے کیسی آواز سنانا چاہتے ہیں۔ کیا آپ صرف تنقید کرنے والی آواز بننا چاہتے ہیں جو اسے صرف اس کی خامیاں یاد دلاتا رہے یا ایک پیار کرنے والی آواز جو ہمیشہ اسے یاد دلاتا رہے کہ وہ ایک اچھا انسان ہے اور محبت کے لائق ہے
Mind-blowing