شباب سے پہلے ( حصہ ششم ) | Before Shabab (Part VI)
انیس سو اننچاس میں میٹرک کرنےکے بعد میں مزید تعلیم کے حصول کے لیۓ لاہور چلا گیا ۔ میں نے سائنس کے مضامین کا انتخاب کیا ۔ میرے والد صاحب چاہتے تھے کہ میں ایف ایس سی کرنے کے بعد انجینئرنگ کالج میں داخل ہو جاؤں اس طرح وہ مجھے انجینئر بنانا چاہتے تھے ۔ میرا رحجان قطعاً ساٸینس کی طرف نہ تھامگر والد صاحب کے حکم کی تعمیل لازمی تھی ۔ کالج کی فضأ سکول سے بالکل مختلف تھی ۔ کہاں وہ سکول کا تنگ سا ماحول اور کہاں کالج کی رنگین فضا ۔ سکول میں اساتذہ کا خوف ہر وقت مسلط رہتا تھا مگر کالج میں میں مکمل آزادی تھی ۔ کالج میں پروفیسر صاحبان لڑکوں میں ذاتی طور پر دلچسپی نہیں لیتے تھے اس لیۓ سست طلبأ کے لیۓ کام نہ کرنے کے بہت مواقع ہوتے ہیں ۔ میں نے بھی اس آذادی سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور پڑھائی کی طرف دھیان نہ دیا ۔ میں کالج ہاسٹل میں رہتا تھا ۔ مجھے ایک ڈارمیٹری میں جگہ ملی جس میں چھ لڑکے رہتے تھے ۔ کمرہ بہت بڑا تھا ہمارے بستر ساتھ ساتھ یوں بچھے رہتے جیسے ہسپتال کا وارڈ ہو ۔ ہم سب کے سب سالِ اول کے طالب علم تھے ۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ سالِ اول میں پڑھا نہیں کرتے بلکہ عیش کرتے ہیں اس لیۓ ہم نے اصل مقصد یعنی تعلیم کو پس پشت ڈال کر دوسرے مشاغل میں حصہ لینا شروع کیا ۔ پیریڈ میں نہ جاتے کالج کے اوقات میں ٹک شاپ میں بیٹھ کر چاۓ پیتے اور گپیں ہانکتے ۔ ہاسٹل میں نماز وغیرہ پڑھنا ضروری تھا اس کے علاوہ قرآن و حدیث کا درس باقاعدگی سے ہوتا اس میں شمولیت بھی لازمی تھی ۔ سینما وغیرہ میں جانا سختی سے منع تھا ۔ مگر باوجود اس مذہبی ماحول کے اور ممنوع ہونے کے ہم سینما کے اشغال سے باز نہ رہ سکے ۔ وقت گزرتا گیا اور ہم امتحان کے خوف سے قطعاً بے پرواہ اپنے کام میں مشغول رہے ۔ سالِ اول ختم ہونے کو آیا سالانہ امتحان قریب آن پہنچا تب ہوش آیا کہ پڑھنا بھی ہے کتابیں نکال کر ورک گردانی شروع کی مگر کتابوں میں ہمارے کام کی کوئی چیز نہ تھی ۔ ساتھ والے محنتی طالب علموں سے پتا لگایا کہ کورس کتنا ختم ہو گیا ہے اور امتحان کس حصہ میں سے ہو گا اس کے مطابق ہم نے دنوں کا حساب لگا کر بڑے انہماک سے پڑھنا شروع کیا ۔ دن رات ایک کر کے میں بمشکل چار میں سے تین مضامین میں پاس ہو سکا اور ہمیں سال دوم میں ترقی دے دی گئ ۔ ہمارے چند ایک ساتھی فیل ہو گیۓ اور دو ایک بیماری کا بہانہ کر کے گھر بھاگ گیۓ ۔
گرمیوں کی طویل چھٹیوں سے پہلے پرنسپل صاحب نے طلبا سے اپیل کی کہ محاذ کشمیر پر لڑنے والی ایک مشہور بٹالین فرقان فورس لڑائی بند ہونے کی وجہ سے ختم کی جا رہی ہے اور اس کے خاتمے کا اعلان ڈگلس صاحب آخری پریڈ کے موقع پر کریں گے ۔ پریڈ کو شاندار بنانے کے لیۓ کرنل صاحب کی درخواست پر کالج کے کچھ جوانوں کو پریڈ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ۔ چناچہ ہم دو سو کے قریب مختلف جماعتوں کے طالب علم پریڈ سے پندرہ دن پہلے بٹالین کے ہیڈ کواٹر سراۓ عالمگیر ضلع جہلم میں پہنچ گیۓ ۔ دو ہفتے تک ہمیں پریڈ کے آداب سکھاۓ جاتے رہے آخر کار کمانڈر انچیف صاحب تشریف لاۓ اور پریڈ بڑے شاندار طریق پر ہوئی ۔ ڈگلس صاحب نے تقریر کے دوران فرقان فورس کی بہت تعریف کی ۔ دوسرے روز ایک سپیشل ٹرین کے ذریعہ بٹالین کے تمام فارغ شدہ جوان لاہور آ گیۓ ۔ کالج واپس آنے کے چند روز بعد موسم گرما کی تعطیلات ہو گئیں ۔ واپسی پر ہمیں کرنل صاحب نے سرٹیفکیٹ عطا فرماۓ جس میں تحریر تھا کہ حامل سرٹیفکیٹ پندرہ دن تک حقیقتاً محاذ کشمیر پر لڑتا رہا ہے حالانکہ ہم صرف پریڈ سیکھ کر واپس آ گیۓ تھے ۔
پریڈ سے واپس آنے کے چند روز بعد کالج تین ماہ کی موسمِ گرما کی تعطیلات کے لیۓ بند ہو گیا اور میں ہوسٹل سے سامان وغیرہ اٹھا کر گھر چلا آیا ۔ محنتی اور ہوشیار طلبا کے لیۓ چھٹیاں کام کرنے کے لیۓ ہوتی ہیں مگر میرے جیسے خوش فکرے کے لیۓ کھیلنے کودنے کے لیۓ ۔ گھر پر کوئی خاص مشاغل نہ تھے اور نہ ہی کوئی دلچسپی کا سامان ۔ لڈن جیسی دور افتادہ بستی میں اپنے مذاج کے نوجوان ملنا محال تھا ۔ حسنِ اتفاق سے ہمارے ہاں ایک مینیجر صاحب کے لڑکے جو میرے شروع سے دوست تھے اور کلاس فیلو بھی ان دنوں ایمرسن کالج میں ایف اے میں پڑھتے تھےتعطیلات ہونے پر وہ بھی گھر آ گیۓ تب وقت خوب گزرنے لگا ۔ ہمارے ہاں ایک خوبصورت باغ تھا جو نواب ممتاز محمد خان دولتانہ کی رہائشی کوٹھیوں سے ملحق تھا ۔ ہم سارا دن باغ میں بیٹھے پڑھتے رہتے اور آم نوشِ جاں کرتے رھتے ۔
لُڈن میں آۓ ہوۓ ہمیں دس سال ہو چکے تھے ۔ میرا بچپن اور لڑکپن کا زمانہ اسی قصبہ کی گلیوں میں گزرا ہے ۔ اب جبکہ میں بغرضِ تعلیم لاہور میں فروکش تھا اور لاہور سے واپس آ کر میں اس قصبہ کو اور ہی انداز سے دیکھنے لگا ۔ٰ وسیع حویلی جس میں جاٸیداد کے دفاتر تھے ۔ گندم اور دوسری اجناس کے گودام تھے۔ نچلے متوسط اور اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کے لیے مہمان خانے تھے ۔ خوبصورت بنگلہ جس میں جدید طرز کے قیمتی قالین ,صوفہ سیٹ اور بیش قیمت تصویریں تھیں اور ہر قسم کا سامانِ تعیش رکھا رہتا تھا وہ اعلیٰ افسران مثلاً ڈپٹی کمشنر اور دورہ کرنے والے وزراء کے لیے تھا ۔ لنگر خانہ میں ہر روز دو من آٹا پکایا جاتا اور صبح شام غریب مسافروں کو روٹی کھلاٸی جاتی رات کو آرام کرنے کے لیے بہت سے کمرے تھے ۔ اس نیک کام کی بدولت میاں ممتاز محمد دولتانہ بہت دعائیں لیتے تھے ۔ میاں صاحب کی رھاٸشی کوٹھی امریکن ڈیزائن کی تھی اور قیمتی سامان سے آراستہ تھی ۔ ہمارا مکان اُن کے رہائشی بنگلہ سے ملحقہ تھا ۔ میاں صاحب کے دادا کے مکان پرانی طرز کے بنے ہوۓ تھے ۔ وہ آثارِقدیمہ کی عمارت کی یاد دلاتے تھے ۔ یہ طرزِزندگی ان فیورڈل لارڈز کی یاد دلاتا ہے جو زمانہ قدیم میں انگلستان میں ہوا کرتے تھے ۔ میاں صاحب کی جاٸیداد کا نام ، جاٸیدادِ غلام محمدیہ لڈن ہے ۔ غلام محمد ان کے پڑدادا کا نام ہے جو گھوگا دولتانہ کے نام سے مشہور تھا ۔ لوگوں میں یہ روایت مشہور تھی کہ گھوگا ایک مشہور ڈاکو تھا ۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب انگریزوں نے اس علاقہ کو آباد کرنا چاہا تو یہاں کے باشندوں کو کہا گیا کہ جتنا علاقہ کوٸی شخص سیراب کرنے کے لیے نہریں کھودے گا وہ علاقہ اُس کی ملکیت قرار دے دیا جاۓ گا ۔ گھوگا اپنے اثرو رسوخ کے ذریے بہت سے نالے کھودوا کر وسیع علاقے کا مالک بن گیا بعدمیں اس کے ہونہار بیٹے نے اسے اور وسعت دی اور باقاعدہ اسٹیٹ بنا لی ۔ لڈن قصبہ سے پانچ میل کے فاصلہ پر دریاۓ ستلج پر اسلام ہیڈورکس ہے یہاں سے تین نہریں نکالی گٸ ہیں ۔ دریا کے باٸیں کنارے سے پرے ریاست بہاولپور کی عملداری شروع ہو جاتی ہے ۔ ہیڈ ورکس بہت پر فضا جگہ ہے ۔ چھٹیوں میں ہم لوگ ہر دوسرے تیسرے روز پکنک کے لیۓ جایا کرتے تھے ۔
جوں توں کر کے تعطیلات ختم ہوٸیں ۔ کام وغیرہ تو کچھ کیا نہ تھا ۔ جیسے گیے تھے ویسے لوٹ آۓ ۔ کالج کھلنے پر نیۓ داخلے شروع ہو گیۓ ۔ کالج اور ہوسٹل میں نیۓ چہرے دکھائی دینے لگے ۔ دوسرے کالجوں میں نیۓ داخل ہونے والے فسٹ اٸر کے طلبا کو فول بنایا جاتا ہے ۔ ہمارے کالج میں پرنسپل صاحب کی طرف سے سختی سے منع تھا اس لیۓ طلبا کو جرآت نہ تھی ۔ نیۓ آنے والے طلبا پہلے پہل تو کچھ روز گھبراۓ رہے مگر بعد میں سنبھل گیۓ ۔
مزید پڑھیئے شباب سے پہلے ( حصہ ہفتم ) | Before Shabab (Part 7)