ہسپتال کا بل جو دودھ کے ایک گلاس سے چکا دیا گیا
ڈاکٹر ہاورڈ کیلی (1858-1943) ایک ممتاز طبیب تھے ۔وہ جانزہاپکنز یونیورسٹی کے چار بانی ڈاکٹرز میں سے ایک تھے جو امریکہ کی پہلی طبی تحقیقی یونیورسٹی ہے ۔ اس کے ساتھ ایک بہترین ہسپتال بھی ہے ۔1895 میں انہوں نے اس ہسپتال میں گائنا کالوجی اور آسٹیٹرکس کا شعبہ قائم کیا انہوں نے اپنے کیرئیر کے دوران ایک استاد اور ایک پریکٹشنر کے طور پر امراض نسواں اور سرجری کے علم کو آگے بڑھایا۔
ان کی وفات کے بعد ان کی ایک دوست آرڈر ڈیوس نے ان کی سوانح عمری تحریر کی جس میں ایسے بہت سے واقعات تحریر ہیں جو انہوں نے خود انہیں سنائے اور کچھ ان کی ڈائری سے اکٹھے کئے گئے ۔
ان میں سے ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے جو بہت مشہور ہوا ۔ اگرچہ اس واقعے کے کچھ مندرجات زیب داستان کے لئے بڑھا چڑھا کر بھی بیان کئے گئے ہیں مگر پھر بھی بنیادی طور پر اس میں سچائی پائی جاتی ہے ۔
ایک لڑکا سکول جاتے ہوئے راستے میں گھر گھر جا کر سامان بیچا کرتا تھا ۔ ایک روز وہ وہ اپنے اس روز کے معمول پر رواں دواں تھا ۔ اسے سخت بھوک لگی تھی مگر اس کے پاس رقم ناکافی تھی ۔
اس نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی گھر کا دروازہ کھٹکھٹائے گا اور پیٹ بھرنے کے لئے کچھ کھانے کا مطالبہ کرے گا چنانچہ اس نے ہمت جمع کرتے ہوئے ایک گھر کے دروازے پر دستک دی ۔ ایک نوجوان لڑکی نے دروازہ کھولا۔ اسے دیکھ کر وہ لڑکا کچھ گھبرا گیا اور کھانا مانگنے کے بجائے صرف ایک گلاس پانی کا مطالبہ کیا ۔
لڑکی اس کا چہرہ دیکھ کر سمجھ گئی کہ ضرور اسے بھوک لگی ہے چنانچہ اس نے پانی کے بجائے ایک گلاس دودھ اسے پیش کیا ۔ لڑکے نے آہستہ آہستہ دودھ پیا اور لڑکی سے اس دودھ کی قیمت پوچھی ۔ لڑکی نے جواب دیا کہ میری والدہ نے مجھے یہ نصیحت کر رکھی ہے کہ کسی پر احسان کر کے اس کے بدلے کی خواہش کبھی مت رکھو ، اس لئے تم پر میرا کوئی قرض نہیں ۔
اس واقعے نے خدا پر اس کے ایمان کو مضبوط کر دیا ۔ دودھ کا وہ گلاس پینے کے بعد اس نے جسمانی طور پر ہی نہیں روحانی طور پر بھی خود کو توانا محسوس کیا ۔
برسوں بعد وہ بچہ ڈاکٹر بن کر شہر کے ایک بڑے ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہا تھا ۔اس دوران خاتون شدید بیمار ہو گئیں۔ انہیں شہر کے اسی بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا کیونکہ مقامی ڈاکٹر اسے لاعلاج قرار دے چکے تھے ۔
اس انوکھی بیماری کا مطالعہ کرنے کے لئے ماہرین کو بلایا گیا جن میں سے ایک ڈاکٹر کیلی بھی تھے ۔جب مریض کے شہر کا نام لیا گیا تو ڈاکٹر کیلی کی آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری ۔ وہ مریضوں کے وارڈ میں گیا اس خاتون کو دیکھا اورپہلی ہی نظر میں اسے پہچان لیا ۔
وہ اپنے مشاورتی کمرے میں واپس گیا ، کیس کا مطالعہ کیا اور فیصلہ کیا کہ وہ خاتون کی جان بچانے کی بھرپور کوشش کرے گا ۔ ڈاکٹر کیلی نے اس کیس پر بھر پور توجہ دی اور انتھک محنت سے اس خاتون کی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا ۔
اس نے ہسپتال کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ بل اس خاتون کو ھیجنے سے قبل حتمی منظوری کے لئے مجھے دیا جائے ۔ جب بل ڈاکٹر کیلی کے پاس آیا تو اس نے کاغذ کے ایک جانب کچھ تحریر کیا اور خاتون کے پاس بھجوا دیا ۔
خاتون نے ڈرتے ڈرتے بل کو دیکھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ بہت مہنگا ہسپتال ہے اور اس بل کو ادا کرتے ہوئے شاہد اس کی تمام عمر کی پونجی خرچ ہو جائے ۔۔
جیسے ہی اس نے بل پر نگاہ ڈالی تو کونے پر لکھی ایک تحریر نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی جہاں لکھا تھا کہ
” یہ تمام بل دودھ کے ایک گلاس کے عوض سالوں پہلے چکا “دیا گیا ہے
تب اس خاتون پر تمام حقیقت آشکار ہوئی ۔ خوشی اور تشکر کے آنسوؤں سے اس کی آنکھیں لبریز ہو گئیں۔