ہمیشہ تمنا و حسرت کا جھگڑا
عید کے اگلے روز آصف نے اعلان کیا کہ اسے اپنی خالہ سے ملنے قریبی شہر جانا ہے ۔ خالہ کا اصرار تھا کہ اس کی نئی نویلی دلہن بھی ساتھ ہو ۔ شوہر کا اعلان سننے کے بعد اس نے سفر کی تیاری شروع کر دی۔
ان دونوں کو موٹر سائیکل پر سفر کرنا تھا ۔ اس نے اپنا نیا جوڑا پہنا ، کانوں میں سوٹ کے ہمرنگ بندے اور ہاتھوں میں چوڑیاں پہننے کے بعد اس نے اپنا پسندیدہ جوتا الماری سے نکالا جو اس نے خاص طور پر اس پر اس روز پہننے کیلئے خریدا تھا ۔
وہ خیالوں میں خود کو آصف کے کندھے پر ہاتھ رکھے ،جھومتی موٹرسائیکل پر ٹھنڈی اور طویل سڑک پر سفر کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔ بہت دنوں بعد دونوں کو ایسا موقع مل پایا تھا کہ وہ گھر والوں بغیر کسی سفر پر جا رہے تھے ۔
وہ کندھوں پر اپنا فیروزی آنچل درست کرتے ہوئے کمرے سے باہر آئی اور آصف کی جانب دیکھا جیسے نظروں ہی نظروں میں اسے اپنی تیاری مکمل ہونے کا عندیہ دے رہی ہو ۔
آصف موٹرسائیکل کا ہینڈل تھامے اس کا انتظار کر رہا تھا مگر یہ دیکھ کر اس کے ارمانوں پر اوس پڑ گئی کہ اس کی پندرہ سالہ نند بھی ہمراہ جانے کو تیار کھڑی تھی۔
غصے اور جھنجھلاہٹ کا احساس خوشی کے احساس پر غالب آ گیا ۔ آصف اس کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر اس کی ناراضگی کو بھانپ گیا مگر وہ چھوٹی بہن کو ساتھ لے جانے سے انکار کر کے ماں کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتا تھا اس لئے نظروں ہی نظروں میں بیوی کو منانے لگا ۔
جلدی سے موٹرسائیکل سٹارٹ کیا تو بہن فورا اچھل کر پیچھے سوار ہو گئی اور پھر تھوڑا سمٹتے ہوئے بھابھی کو اشارہ کیا کہ وہ اس کے آگے بیٹھ سکتی ہے ۔ آصف نے اپنا زیادہ وزن موٹرسائیکل کی ٹینکی پر ڈالا اور یوں اسکے بیٹھنے کے لئے جگہ بن گئی ۔
وہ دونوں نند بھاوج موٹرسائیکل کے پیچھے کچھ یوں دبکی بیٹھی تھیں جیسے برائلر مرغیاں ایک گاڑی میں ٹھنس کر مرغی خانے سے روانہ ہوتی ہیں ۔
اسے اپنے شوہر پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا ۔ سفر طویل تھا اور تنگ جگہ پر ایک ہی پہلو بیٹھے رہنے کے باعث اس کی کمر بھی دکھنے لگی تھی ۔ اس نے آصف سے کمر درد کی شکایت کی تو اس نے موٹرسائیکل ایک جانب روک لی۔
کچھ دیر کھڑے ہو کر اس نے کمر سیدھی کی ۔ اور اپنی نند کی جانب غصے بھری نگاہ ڈالی ۔ نند نے اس کا غصہ بھانپ لیا اور کہنے لگی ، بھابی اگر آپ درمیان میں بیٹھ کر تنگ ہو رہی ہیں تو آپ پیچھے بیٹھ جائیں میں درمیان میں بیٹھ جاتی ہوں ، نند کی بات سن کر اس نے اثبات میں سر ہلایا اور بولی ،” ہاں کچھ ایسا ہی کرنا پڑے گا ویسے بھی کچھ لوگوں کو کباب میں ہڈی بننے کا شوق ہوتا ہے “-
نند اس کے طنز کو سمجھ گئی اور منہ پھلا کر درمیان میں بیٹھ گئی۔ کچھ فاصلہ اسی طرح خاموشی سے طے ہوا ۔ اب موٹرسائیکل قدرے ناہموار سڑک پر دوڑ رہی تھی ، جھٹکوں کے باعث کیرئیر بری طرح اس کی کمر سے ٹکرا رہا تھا ، تکلیف کی شدت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے آصف کو آواز دے کر موٹرسائیکل روکنے کو کہا ۔ تیز رفتاری اور ہوا کے شور کے باعث اس کی آواز آصف کے کانوں تک نہ پہنچ پائی اس نے دوبارہ قدرے چلا کر روکنے کو کہا ۔ آصف نے جھنجھلاہٹ کے انداز میں موٹرسائیکل ایک جانب روکی اور اس سے چلانے کا سبب پوچھنے لگا ۔
اس نے بتایا کہ کیریئر کے ٹکرانے سے اس کی کمر میں شدید تکلیف شروع ہو گئی ہے اس لئے اب وہ اپنی بہن سے کہے کہ وہ پیچھے بیٹھ جائے ۔ نند غصے سے منہ پھلائے پیچھے جا بیٹھی۔
کمر کی تکلیف سے بچنے کے لئے اب اس نے دونوں جانب ٹانگیں کر کے بیٹھنے میں ہی عافیت محسوس کی۔ کچھ وقت سکون سے گزر گیا ۔آصف اس بار بار کے ادل بدل سے تنگ آ چکا تھا چنانچہ اس نے موٹرسائیکل کی رفتار بڑھا دی تاکہ جلد اپنی منزل پر پہنچا جا سکے ۔
کچھ فاصلہ خاموشی سے طے ہوا ۔ جلد ہی اس نے محسوس کیا کہ ایک ٹانگ زیادہ بوجھ پڑنے کے باعث سو گئی ہے ۔ اس نے اک جانب جھک کر اپنے پاؤں کی پوزیشن کو ٹھیک کرنا چاہا تو موٹرسائیکل جو سو کی سپیڈ سے چل رہی تھی اچانک ڈگمگا گئی ۔ شوہر نے پھرتی سے موٹرسائیکل کو سنبھالا اور غصے سے بیوی کو ڈانٹنے لگا اور اسے سیدھا بیٹھنے کو کہا۔ بیوی جو پہلے ہی تپی بیٹھی تھی اور غصے میں آگئی ۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ اب چاہے کچھ بھی ہو وہ آصف سے بات نہیں کرے گی۔
غصے کے باعث وہ منہ پھلائے بیٹھی رہی ۔ اس کی ٹانگ بری طرح سو چکی تھی یہاں تک کہ اسے پاوں میں پہنے اپنے پسندیدہ جوتے کا لمس بھی محسوس نہ ہوا مگر ناراضگی کے باعث اس نے منہ سے ایک لفظ نہ کہا یہاں تک کہ وہ خالہ کے مکان کے سامنے جا پہنچے ۔
خالہ کے مکان پر پہنچ کر جیسے ہی اس کی نظر اپنے پاؤں پر پڑی تو اس نے ایک پاوں کو بغیر جوتے کے پایا ۔ اب تو اس کا غصہ آسمان کو چھونے لگا ۔ سفر میں جو تکلیف اس نے برداشت کی سو کی مگر اب وہ اپنے پسندیدہ جوتے سے محرومی قطعًا برداشت نہ کر سکتی تھی۔ راستے میں کچھ دیر پہلے اس نے دیکھا تھا کہ اس کے پاؤں میں جوتا موجود تھا اس لئے اس کا خیال تھا کہ جوتا قریب ہی کہیں گرا ہے ۔ اس نے ضد کی ابھی واپس جا کر سڑک پر جوتا تلاش کیا جائے ۔
آصف نے اسے تسلی دی اور موٹرسائیکل کو واپس موڑا ۔ اب وہ نیم تاریک سڑک کا بغور جائزہ لیتے ہوئے جا رہے تھے ۔ کچھ ہی دور گئے تھے کہ یہ دیکھ کر اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اس کا پسندیدہ جوتا سڑک کے بیچوں بیچ اوندھا مگر صحیح سلامت پڑا تھا ۔ اس نے چلا کر آصف کو روکنے کو کہا اور جوتے کی طرف اشارہ کر کے بولی ،” وہ دیکھیے سامنے میرا جوتا پڑا ہے میں ابھی لے کر آتی ہوں۔
آصف نے موٹرسائیکل ایک جانب کھڑی کی ۔ وہ موٹرسائیکل سے اتر کر جیسے ہی جوتے کی حانب بڑھی پیچھے سے ایک تیز رفتار موٹرسائیکل ہارن بجاتے ہوئی آئی اور اس کی پیاری جوتی کو کچلنے ہوئے گزر گئی ۔ جوتی دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر دور جا گری۔ اب اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا ۔ اپنی آنکھوں کے سامنے ہی اپنے پسندیدہ جوتی کا یہ حشر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ اس نے غصے سے دوسرے پاؤں کا جوتا بھی دور پھینک دیا اور نند کی جانب قہر آلود نظروں سے گھورا جس کے ساتھ آنے کی وجہ سے آج اس کا سارا دن برباد ہو گیا تھا ۔
دونوں کے درمیان لفظی گولہ باری شروع ہو چکی تھی اور آصف ان کے درمیان بیچ بچاؤ کرواتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ اب وہ خالہ کے گھر جائے یا واپس۔