ولی اللہ کی نماز
محمد جلال الدین رومی مشہور فارسی شاعر تھے۔
آپ دنیا بھر میں اپنی لازوال مثنوی کی بدولت جانے جاتے ہیں۔ آپ ایران میں پیدا ہوئے مگر مزار ترکی میں ہے ۔
مولانا رومی اپنے دور کے اکبر علماء میں سے تھے ۔آپ مذہب اور فقہ کے بہت بڑے عالم تھے مگر آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی ۔ شمس تبریز مولانا کے پیرومرشد تھے ۔
سلجوقی سلطان نے آپ کی شہرت سے متاثر ہو کر اپنے پاس بلا لیا ، اس طرح آپ قونیہ چلے گئے ۔باقی زندگی وہیں گزاری اور وہیں وفات پائی ۔
آپ کی نصیحت آموز حکایات کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا ہے جس کا نام ، حکایات رومی، ہے ۔
آپ کی حکمت سے لبریز ایک حکایت درج ذیل ہے ۔
ایک ولی اللہ امامت کے لئے کھڑے ہوئے ۔ چند ہم عصر ساتھی بھی ان کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کھڑے ہو گئے ۔ جیسے ہی وہ حضرات تکبیروں سے وابستہ ہوئے ، قربانی کی طرح اس دنیائے فانی سے باہر نکل گئے ۔ تکبیروں کے معنی ان کے نزدیک یہ تھے کہ اے اللہ! ہم تیرے نام پر قربان ہوئے ۔ جیسے ذبح کے وقت تکبیریں پڑھی جاتی ہیں انہوں نے اللہ اکبر پڑھی اور نفس کا سر کاٹ دیا ۔ جسم شہوتوں اور حرص سے چھوٹ گیا ، بسم اللہ کے ذریعے نماز میں بسمل ہو گیا ۔ اس کے بعد انہوں نے قیامت کے دن کی طرح اللہ کے حضور کھڑے ہو کر ہاتھ باندھ دئے ۔ پھر اللہ عزوجل نے پوچھا ، میرے لئے کیا لائے ۔ میں نے ایک عمر تمہیں عطا کی ،روزی دی ،طاقت دی ،تو نے کس کس کام میں لگائی۔ بینائی، سماعت اور دیگر حواس کی دولت دی تو نے کس طرح استعمال کی ۔ ہاتھ پاؤں تجھے کام کرنے کے لئےدیئے تو نے ان سے کیا کام لیا ۔
قیام کی حالت میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ایسے متعدد سوال ہوتے رہے ۔ چونکہ انسان کا دامن خالی تھا لہٰذا وہ سوالوں کی تاب نہ لا سکا اور فورا رکوع میں چلا گیا ۔
شرم سے رکوع میں اللہ عزوجل کی عظمت کی بڑائی کرنے لگا ۔ اللہ کا حکم ہوتا ہے ، رکوع سے اُٹھ اور جواب دے۔ وہ سر اٹھاتا ہے پھر طاقت گویائی نہ پا کر سجدہ میں منہ کے بل گرتا ہے ۔ پھر سجدے سے سر اٹھانے کا حکم ملتا ہے ۔
پھر سر اٹھا کر گر پڑتا ہے ، پھر اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے ہوئے کھڑا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے ساتھ یہی عمل دہرایا جاتا ہے ۔ دوسری رکعت مکمل کرنے کے بعد کھڑے ہونے کی تاب نہ پا کر قعدہ میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اس میں اللہ عزوجل فرماتے ہیں ، میں نے تجھے بیشمار نعمتیں دیں تو نے کیسے خرچ کیں مجھے حساب دے ،چونکہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا وہ جواب نہیں دے پاتا داہنے طرف سلام کہتا ہے اور انبیاء کرام کو مخاطب کر کے اپنی مدد کے لئے بلاتا ہے پھر بائیں جانب اپنے اہل خانہ اور دوست احباب کو سلام کہ کر مدد کے لئے بلاتا ہے ۔ دونوں طرف سے مایوس ہو کر رحیم وکریم آقا کے حضور دعا کے لئے ہاتھ بلند کرتا ہے پھر آہ و زاری سے اپنے خدا کی خوشنودی کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے ۔
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ؛
نماز اس طرح پڑھو گویا تم خدا کے حضور دست بستہ کھڑے ہو ۔