پاکستان کی فضائی آلودگی شہریوں کی اوسط عمر میں کمی کا باعث بن رہی ہے Pakistan’s air pollution is causing a decrease in the average age of citizens
اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاہور شہر فضائی آلودگی کے اعتبار سے دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوتا ہے ۔یہاں کی ہوا سانس لینے کے لئے خطرناک حد تک آلودہ ہے۔
یہ سوال کئی لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہو سکتا ہے کہ آخری کس طرح معلوم کیا جاتا ہے کہ کسی جگہ کی ہوا کس حد تک آلودہ ہے ۔ اس کے لئے جائزہ لیا جاتا ہے کہ ہوا میں 2.5 مائیکرومیٹرسے چھوٹے ذرات کس کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ ذرات اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ خوردبین کے بغیر انہیں دیکھنا ممکن نہیں ہوتا ۔
فرض کریں کہ آپ اپنے ارد گرد کی ہوا کو ایک ایسے ڈبے میں بند کردیں جس کی اونچائی،لمبائی اور چوڑائی ایک ایک میٹر ہو اور پھر یہ دیکھیں کہ اس ہوا میں کتنے ذرات 2.5 مائیکرومیٹر سے کم سائز کے ہیں تو ہم جان جائیں گے کہ پوری ہوا میں ان کی کثرت حجم کے اعتبار سے کیا ہو گی ۔ اس حوالے سے جو اکائی استعمال کی جاتی ہے وہ مائیکروگرام فی کیوبک میٹر ہے۔ یعنی یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک کیوبک میٹر میں ان ذرات کی مقدار کتنے مائیکروگرام ہے ۔ اگر یہ مقدار عالمی ادارہ صحت کے مقرر کئے گئے پیمانے سے زیادہ ہو تو یہ انسانی صحت کے لئے خطرناک تصور کی جائے گی۔ یہ مقدار جتنی زیادہ گی اتنا ہی انسانی صحت اور پھیپھڑوں کے لئے خطرناک ثابت ہو گی۔
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر 2.5 مائیکرومیٹر سے کم سائز کے ذرات کا جائزہ ہی کیوں لیا جاتا؟ وہ اس لئے کہ کوڑے کو جلانے سے نکلنے والے دھاتی ذرات یا گاڑیوں کے دھویں میں موجود کاربن کے ذرات 2.5 مائیکرومیٹر سے چھوٹے ہوتے ہیں جبکہ مٹی یا پولن کے ذرات اس سے بڑے یعنی تقریبا 10 مائیکرومیٹر تک ہو سکتے ہیں۔
ہوا کی کوالٹی کو جاننے کے لیے جو سکیل بنایا گیا ہے اسے ائیر کوالٹی انڈکس کہا جاتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کسی شہر کی ہوا کس حد تک صاف یا آلودہ ہے ۔ اس کے لئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایک خاص علاقے میں 2.5 مائیکرومیٹر سے کم سائز کے ذرات، 10 مائیکرومیٹر کے ذرات اور دیگر خطرناک گیسیں مثلاً کاربن مونو آکسائیڈ،سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کس مقدار میں پائی جاتی ہیں ۔ اس مقدار کی درجہ بندی کچھ اس طرح سے کی گئی ہے کہ 0 تا 12 ائیر کوالٹی انڈکس یہ بتاتا ہے کہ ا علاقے کی ہوا نہایت صاف اور صحت بخش ہے ۔
ائیرکوالٹی انڈکس 100تک ہو تو ایسی ہوا میں سانس لینے سے سانس کی بیماریوں کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہو گا ۔100 سے اوپر ائیرکوالٹی انڈکس جوں جوں بڑھتا ہے ہوا انسانی صحت کے لئے خطرناک ہوتی جاتی ہے ، ایسی ہوا میں سانس لینے سے پھیپھڑوں کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں ۔300 سے اوپر ائیرکوالٹی انڈکس انسانی پھیپھڑوں اور دل کے لیے بہت خطرناک ہوتا ہے ، اس سے نہ صرف بہت سےعوارض جنم لیتے ہیں بلکہ جلد اموات کا خطرہ بھی بڑھتا جاتا ہے ۔
بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ گاڑیوں میں استعمال ہونے والا پیٹرول ایک خاص معیار تک صاف ہو تاکہ اس سے چلنے والے انجن میں مضر صحت ذرات کم سے کم ہوں۔ اس کے علاوہ گاڑیوں کی فٹنس کی بھی مکمل جانچ کی جاتی ہے ۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں کیے جاتے ۔ اس بارے میں قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ پٹرول اور ڈیزل کو عالمی معیار کے مطابق ریفائن نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں نہ صرف زہریلا دھواں خارج ہوتا ہے بلکہ گاڑیوں کے انجن بھی جلد خرابی یو جاتے ہیں ۔ مزید یہ کہ مجرمانہ غفلت اور واضح پالیسیوں کے نہ ہونے کے سبب خراب انجن والی گاڑیاں سڑکوں پر رواں رہتی ہیں اور مزید آلودگی پھیلانے کا باعث بنتی ہے ۔
اس وقت لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوتا ہے ۔ دن کے اوقات میں یہاں کا ائیر کوالٹی انڈکس 400 سے اوپر چلا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کے سیفٹی لیول سے 40 گنا زیادہ ہے۔
عموما نومبر ، دسمبر میں فضائی آلودگی شدت اختیار کر لیتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ گرمیوں میں ہوا گرم ہوتی ہے اور یہ ذرات نچلی سطح پر جمع نہیں ہوتے اور اوپر کی جانب چلے جاتے ہیں جبکہ سردیوں میں ایسا نہیں ہوتا اس لیے سردی کے موسم میں سموگ کے باعث ارد گرد کے مناظر دیکھنا بھی محال ہو جاتا ہے اور ایسی فضا میں سانس لینا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔
عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی فضائی آلودگی یہاں کے شہریوں کی عمر میں اوسط 4.3 سال کم کر رہی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلے پر قابو پانے کے لیے ڈیزل اور پٹرول کا معیار بہتر بنایا جائے،گاڑیوں کی فٹنس بہتر کی جائے اور پبلک ٹرانسپورٹ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے تاکہ صحت کے مسائل کو قابو کیا جا سکے۔