ہمیں کہانیاں کیوں پسند ہیں؟ Why do we love stories?

ہمیں کہانیاں کیوں پسند ہیں؟  Why do we love stories?

 

 تہذیب کے آغاز سے ہی کہانی سنانا انسانی ثقافت کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔ قدیم افسانوں اور لوک کہانیوں سے لے کر جدید ناولوں اور فلموں تک، کہانیوں میں ہمارے ذہنوں کو موہ لینے، جذبات کو ابھارنے کی زبردست صلاحیت ہوتی ہے ۔ کہانیاں، دنیا کے بارے میں ہماری سمجھ کو تشکیل دینے کی ناقابل یقین صلاحیت رکھتی ہیں ۔ لیکن کہانی سنانے کے پیچھے سائنس کیا ہے؟ داستانیں ہم پر اتنا گہرا اثر کیوں ڈالتی ہیں؟ اس مضمون میں، ہم سائنس اور کہانی سنانے کے درمیان دلچسپ تعلق کو دریافت کرتے ہیں اور ان علمی اور جذباتی میکانزم سے پردہ اٹھاتے ہیں جو کہانیوں کو اتنا مسحور کن بناتی ہیں ۔

 انسانی دماغ پر کہانیوں کے اثرات

 نیورو سائنس کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کہانیاں ہمارے دماغ کے لئے خاص کشش کا باعث ہوتی ہیں ۔ جب ہم کوئی کہانی سنتے یا پڑھتے ہیں، تو ہمارےدماغ کے مختلف حصے کہانی میں بیان کردہ حالات اور تجربات کے باری میں حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں متحرک ہو جاتے ہیں ، ان واقعات کے بارےمیں دماغ میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے گویا کہ یہ واقعات اس کے ساتھ پیش آ رہے ہیں ۔نیز زبان دانی سےمتعلق حصوں میں بھی تحریک پیدا ہوتی ہے اور ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ رجحان، جسے “نیورل کپلنگ” کہا جاتا ہے، ہمیں کرداروں کے ساتھ ہمدردی کرنے اور ان کی دنیا میں کھو جانے کی اجازت دیتا ہے۔

جب ہم کوئی کہانی سنتے یا پڑھتے ہیں، تو ہمارا دماغ ذہنی تصویریں بناتا ہے اور بیان کیے گئے تجربات کی نقالی کرتا ہے، جس سے ہمیں کرداروں کے ساتھ ہمدردی پیدا کرنے اور بیانیہ کو قبول کرنے کی صلاحیت ملتی ہے۔

  دماغ کے متعدد حصوں کے بیک وقت فعال ہونے سے، کہانی کا تاثر مزید گہرا ہو جاتا ہے ۔

 شخصیت کی آئینہ دار

 کہانیوں کے ذریعے دئے گئے سبق اتنے موثر اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ ہم کہا نیوں میں بیان کردہ حالات اور کرداروں کے ساتھ خود کومنسلک کر لیتے ہیں ۔ کرداروں کے ساتھ یہ تعلق پیچیدہ خیالات اور اخلاقی تصورات کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے ۔ نفسیاتی مطالعے سے پتا چلتا ہےکہ سادہ حقائق اور اعداد و شمار کے مقابلے میں کہانی کی شکل میں بیان کی گئی معلومات کو ہم زیادہ یاد رکھتے ہیں ۔ کہانیاں آئینہ بن جاتی ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی زندگیوں، اقدار اور خواہشات کی عکاسی کرتے ہیں۔

 جذباتی وابستگی

 کہانی سنانے میں جذبات ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ہم کسی کہانی سے جذباتی طور پر جڑتے ہیں، تو ہمارا دماغ آکسیٹوسن اور ڈوپامائن جیسے نیورو کیمیکل خارج کرتا ہے، جو ہمارے جذباتی تجربے کو بڑھاتا ہے اور ہماری یادداشت کی تشکیل کو تقویت دیتا ہے۔ طاقتور بیانیے میں خوشی اور جوش سے لے کر خوف اور اداسی تک جذبات کی ایک وسیع رینج کو متحرک کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ جذباتی ردعمل کہانی کو مزید یادگار بناتا ہے، جو ہمیں کہانی سنائے جانے کے کافی عرصے بعد تک تفصیلات اور اسباق کو یاد کرنے کے قابل بناتا ہے۔

 قائل کرنے کا فن

 کہانیاں طویل عرصے سے لوگوں کو قائل کرنے اور اثر و رسوخ کے ایک آلے کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں۔ جب حقائق اور اعداد و شمار کا سامنا ہوتا ہے، تو ہمارا دماغ عقلی تجزیہ کرنے میں مشغول ہوتا ہے۔ تاہم، جب کہانی پیش کی جاتی ہے، تو ہمارے ذہن بنیادی پیغام کو زیادہ قبول کرتے ہیں۔ کہانیاں مزاحمت کو توڑ سکتی ہیں، عقائد کو شکل دے سکتی ہیں اور عمل کی ترغیب دے سکتی ہیں۔ کہانی سنانے کی تکنیکوں کا فائدہ اٹھا کر، افراد اور تنظیمیں اپنے خیالات کو مؤثر طریقے سے پہنچا سکتے ہیں اور دیرپا اثر پیدا کر سکتے ہیں۔

 روابط اور ہمدردی کی تعمیر

کہانیوں میں مختلف ثقافتوں کے درمیان خلاء کو ختم کرنے اور ہمدردی کو فروغ دینے کی منفرد صلاحیت ہوتی ہے۔ متنوع کرداروں اور تجربات کو پیش کرکے، کہانی سنانے سے ہمیں مختلف پس منظر اور ثقافتوں کے لوگوں کو سمجھنے اور ان سے تعلق پیدا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کہانیوں کا یہ ہمدردی پیدا کرنے والا پہلو آج کی گلوبلائزڈ اور باہم جڑی ہوئی دنیا میں خاص طور پر اہم ہے، جہاں سماجی ہم آہنگی کے لیے شعور پیدا کرنےاور باہمی افہام و تفہیم کی اشد ضرورت ہے۔

کہانیاں چاہے ایک دلکش ناول کی شکل میں پڑھی جائیں یا فلم کی صورت میں پردہ سکرین پر دیکھی جائیں ، یہ ہمارے ذہنوں اور دلوں پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں اور ہمارے خیالات، جذبات اور رویوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ یہ ایک طاقتور ہتھیار ہے جسے کہانی سنانے والا مختلف مقاصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے ۔

 

 

CATEGORIES
TAGS
Share This

COMMENTS

Wordpress (0)
Disqus (0 )